پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے سابق معاون خصوصی وزیراعظم عثمان ڈار کے انٹرویو کو ’نئی بوتل میں پرانی شراب‘ قرار دیا ہے۔
پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ 24 روز تک زیر حراست رہنے کے بعد اچانک نجی ٹی وی پر رونمائی سے ساری حقیقت آشکار ہو رہی ہے۔ اس سے قبل عثمان ڈار کو اغوا کرنے پر ان کی والدہ، بھائی اور دیگر اہلخانہ کے بیانات ریکارڈ پر ہیں۔
پی ٹی آئی کے مطابق گزشتہ 5 ماہ کے دوران عثمان ڈار کی رہائشگاہ پر پولیس کے چھاپوں، ان کی والدہ سمیت دیگر خواتین اہلِ خانہ سے بدسلوکی اور ان کی فیکٹری اور رہائشگاہ پر پڑنے والے تالے پوری قوم دیکھ چکی ہے۔
مزید پڑھیں
پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ 9 مئی کے 5 ماہ بعد حراست سے واپس آ کر دیے گئے انٹرویو کی عوام کی نگاہ میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔
پی ٹی آئی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس قسم کے ہتھکنڈے صداقت عباسی، فرخ حبیب اور شیخ رشید پر بھی آزمائے جا سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے مطابق عمران خان کی بے گناہی اور تحریک انصاف کو میسّر عوامی تائید کی گواہی خود عثمان ڈار دے چکے ہیں۔
پی ٹی آئی نے مطالبہ کیا ہے کہ ملک کو گھسے پٹے ڈراموں اور فلموں کی بھینٹ چڑھانے کے بجائے 9 مئی کے واقعات کی اعلیٰ سطح عدالتی کمیشن کے ذریعے تحقیقات کروائی جائیں اور 90 روز کی دستوری مدت میں ملک میں عام انتکابات کرائے جائیں۔
واضح رہے کہ عثمان ڈار نے آج نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے پی ٹی آئی سے علیحدگی کے ساتھ سیاست کو بھی خیرباد کہنے کا اعلان کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں سانحہ 9 مئی: عمران خان دہشت گردی کے مزید 3 مقدمات میں نامزد
عثمان ڈار نے کہاکہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا اس کا فیصلہ عمران خان کے زیر صدارت اجلاس میں ہوا۔
عثمان ڈار کے مطابق عمران خان 9 مئی کو احتجاج کے ذریعے دباؤ بڑھا کر آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو عہدے سے ہٹانا چاہتے تھے۔
پی ٹ آئی رہنما کی جانب سے یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ عمران خان کی جانب سے اکتوبر 2022 میں دیا گیا دھرنا جنرل عاصم منیر کی آرمی چیف تعیناتی روکنے کے لیے تھا۔