آج کل انسان سیلاب کے خطرے سے دوچار علاقوں میں آباد ہونا کیوں پسند کرتے ہیں؟

جمعہ 6 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

دنیا بھر میں سیلاب  کے خطرے سے دوچارعلاقوں میں،  حیران کن طور پر گزشتہ  30 برسوں میں انسانی آباد کاری میں 122 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

حال ہی میں سامنے آنے  والی ایک جائزہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بہت زیادہ لوگ خطرات سے دوچار زندگی بسر کر رہے ہیں۔ وہ دنیا بھر میں ایسے علاقوں میں جاکر آباد ہونا شروع ہوگئے ہیں جہاں اونچے درجے کے سیلاب آنے کا خطرہ ہے۔ اس کا دوسرا مطلب ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ایک بڑے انسانی المیے کا خطرہ ہے۔

 عالمی جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 1985 کے بعد سے  سیلاب کے خطرے سے دوچار علاقوں میں قائم ہونے والی  بستیوں کی تعداد میں 122 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ محفوظ ترین علاقوں میں یہ شرح 80 فیصد ہے۔

محققین نے سیٹلائٹ کا استعمال کرتے ہوئے آباد کاری میں ہونے والی توسیع کو دیکھا ہے۔ ان کے مطابق دنیا میں سیلابوں کے خطرات سے دوچار علاقوں میں 1985 سے 2015 تک مجموعی طور پر 85 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

عالمی بینک کے سینئر موسمیاتی مشیر اور ڈیزاسٹر اکنامکس کے ماہر اسٹیفن ہالیگیٹ کا کہنا ہے کہ لوگ بہتر زندگی اور اچھی ملازمتوں کی تلاش میں ہیں۔ وہ سیلابوں کے خطرے سے دوچار علاقوں میں اس لیے بس جاتے ہیں کہ وہ ان کی استطاعت میں ہوتے ہیں۔‘

تحقیق کے مطابق یہ مسئلہ درمیانی اور کم آمدنی والے ممالک میں زیادہ ہے۔ امریکا اور یورپ کے بعض ممالک میں لوگ سیلابوں کے خطرات سے محفوظ علاقوں میں بس رہے ہیں اور غریب ترین ممالک میں لوگ سیلاب زدہ علاقوں میں بس رہے ہیں۔

چین اور ویت نام میں 30 برسوں میں سیلاب کے خطرے والے علاقوں میں انسانی آبادکاری 3 گنا بڑھی۔ یہ  ان کے خشک زمینی علاقوں سے کہیں زیادہ ہے۔ زیادہ تر ممالک خاص طور پر مشرقی ایشیا میں خشک علاقوں کی نسبت باقاعدہ سیلابی علاقوں اور انتہائی ہائی فلڈ زونز میں زیادہ آبادیاں دیکھی گئیں۔

لیبیا (جو گزشتہ ماہ تباہ کن سیلاب کا شکار ہوا) میں بدترین سیلاب والے علاقوں میں آبادکاری کی حد میں 83 فیصد اضافہ ہوا جبکہ پاکستان (جو گزشتہ سال اور اس سال دونوں تباہ کن سیلابوں کا شکار تھا) میں 89 فیصد اضافہ ہوا۔

عالمی بینک کے ماہر اقتصادیات جون رینٹشلر نے کہا ہے کہ دارالسلام تنزانیہ اس مسئلے کا پوسٹر سٹی ہے، ورلڈ پاپولیشن ریویو کے مطابق یہ 1950 میں تقریباً 83,000 افراد پر مشتمل ماہی گیروں کا گاؤں تھا جس کی آبادی اب بڑھ کر 7 ملین سے زیادہ ہو گئی ہے۔

امریکا میں سیلابی خطرات سے دور علاقوں میں آبادی میں 76 فیصد اضافہ دیکھا گیا، یہاں ہونے والی آبادکاری میں زیادہ سے زیادہ  46 فیصد اضافہ ہوا۔ خشک بستیوں میں نسبتا زیادہ آباد کاری  والے دوسرے ممالک میں فرانس، سویڈن، آسٹریا، فن لینڈ، جاپان، کینیڈا اور ہندوستان شامل ہیں۔

کولمبیا یونیورسٹی کے موسمیاتی سائنسدان کلاؤس جیکب نے کہا ہے کہ یہ ایک اہم تحقیق جس میں ترقی یافتہ علاقوں اور سیلاب سے متاثر ہونے والے علاقوں، دونوں کا ڈیٹا مرتب کیا گیا ہے۔ یہ کام پہلے کبھی نہیں کیا گیا تھا۔ آمدنی کی سطح کے لحاظ سے ممالک میں فرق کرنے کا ڈیٹا اہمیت کا حامل ہے اور یہ دلچسپ سماجی و اقتصادی بصیرت فراہم کرتا ہے۔

ریسرچ رپورٹ کے مصنفین نے کہا کہ سیلاب کے خطرے سے دوچارعلاقوں میں بڑھتی ہوئی آبادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، درحقیقت یہ دونوں مسئلے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔

اسٹیفن ہالیگیٹ کے مطابق دونوں صورتوں میں غریب ممالک اس صورتحال سے بچ سکتے ہیں جس کا سامنا اوسط  آمدنی والے ممالک اب کر رہے ہیں۔ شہری ترقی کے ساتھ سمارٹ پلاننگ بھی لوگوں کو خطرناک ترین جگہوں پر جانے سے روک سکتی ہے، اسے ابھی ٹھیک کرنا اس سے کہیں زیادہ سستا ہے کہ اسے بعد میں ٹھیک کیا جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp