سپریم کورٹ کی جانب سے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت نے نظرثانی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی درخواست پر کیس سنا، اور کارروائی مکمل ہونے کے بعد 15 ستمبر کو نیب ترامیم کیس کا فیصلہ سنایا تھا۔
ذرائع کے مطابق اب وفاقی حکومت نے نیب ترامیم کیس کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ قانونی ٹیم سپریم کورٹ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے 15 اکتوبر تک درخواست دائر کرے گی۔
نیب ترامیم کیوں کالعدم قرار دی گئیں
2022 میں 14 جماعتی اتحاد پی ڈی ایم نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کامیاب بناتے ہوئے اپنی حکومت قائم کی، شہباز شریف کو وزیر اعظم بنایا گیا۔ اس دوران پی ڈی ایم اتحادی جماعتوں نے نیب ترامیم سے متعلق بل پارلیمنٹ سے منظور کرا دیا۔
نیب ترامیم سے متعلق بل منظور ہونے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے سپریم کورٹ میں اس بل کے خلاف ایک درخواست دائر کی۔ اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے، کیس پر سماعت شروع کر دی۔
مزید پڑھیں
تاہم سپریم کورٹ کی کارروائی چلتی رہی اور بالآخر 53 سماعتوںکے بعد 15 ستمبر کو سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے فیصلہ سنا دیا۔ 2 ایک کی اکثریت سے جاری ہونے والے فیصلے کے مطابق نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے عوامی عہدہ رکھنے والے افراد کے نیب میں موجود تمام مقدمات کو بھی دوبارہ بحال کر دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ کے 2 ججز کے اکثریتی فیصلے کے مقابلے میں جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے نیب ترامیم پر فیصلہ سناتے ہوئے 10 میں سے 9 شقوں کو اڑا دیا، فیصلے کے مطابق نیب ترامیم میں ایک کے سوا تمام شقیں کالعدم قرار دی گئیں، سروس آف پاکستان کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کی شق کو برقرار رکھا گیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں احتساب عدالتوں کی جانب سے ختم کیے جانے اور منتقل کیے جانے والے تمام مقدمات بحال ہوگئے، نیب ترامیم کالعدم ہونے سے شہباز شریف، آصف زرداری، حمزہ شہباز، شاہد خاقان عباسی کے مقدمات بھی بحال ہوگئے۔
واضح رہے نیب کے پرانے قانون کے مطابق نیب مقدمے میں گرفتار ملزم کی ضمانت ہائیکورٹ کا ڈویژن بینچ دے سکتا تھا جبکہ ترمیمی قانون میں یہ اختیار احتساب عدالت کو دے دیا گیا تھا۔