سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ: آئین و قانون کا انحصار چیف جسٹس کی خواہشات پر نہیں، فائز عیسیٰ، سماعت ملتوی

پیر 9 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت آج چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں عدالت عظمٰی کے فل کورٹ بینچ نے کی، چیف جسٹس نے کیس کی سماعت آج ختم کرنے سے متعلق ریمارکس دیے تاہم وکلا کے دلائل شام تک جاری رہے جس پر چیف جسٹس نے سماعت کل ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔

سماعت کے آغاز پر صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین میں درج سبجیکٹ ٹو لا کا یہ مطلب نہیں کہ پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتی ہے، اس معاملے پر الگ سے قانون سازی اختیارات سے تجاوز ہو گا، آئین اس معاملے پر پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار نہیں دیتا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں نئی قانون سازی نہیں ہو سکتی، آپ کےمطابق سپریم کورٹ پہلے سے موجود قانون کے مطابق ہی رولز بنا سکتی ہے، موجودہ قانون کے دائرہ کار میں رہ کر رولز میں ردو بدل کرنے کا اختیار صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیے کہ آئین کہتا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر کے رولز بنانے کے لیے بااختیار ہے، اگر سپریم کورٹ آئین سے بالا رولز بناتا ہے تو کوئی تو یاد دلائے گا کہ آئین کے دائرے میں رہیں۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن بولے؛  آئین تو پہلے ہی سپریم کورٹ کو پابند کرتا ہے کہ آئین و قانون کے مطابق رولز بنائے۔

چیف جسٹس نے عابد زبیری سے دریافت کیا کہ اگر ’سبجیکٹ ٹو لا‘ کو نکال دیں تو رولز بنانے کے اختیار پر کیا فرق پڑے گا، جس پر عابد زبیری بولے؛ اگر آئین سے آئین و قانون کے مطابق رولز بنانے کے الفاظ ہٹا دیے جائیں تو بھی فرق نہیں پڑے گا۔ چیف جسٹس نے جواباً کہا؛ بس ٹھیک ہے جواب آ گیا اگلے نکتے پر جائیں۔

اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آئین و قانون کے مطابق رولز بنانے کے لیے پابند کرنے کا مطلب ہے کہ موجودہ قانون کے مطابق رولز بنیں گے، چیف جسٹس بولے؛ آج ہم یہ کیس سن رہے ہیں اور ہمارے ادارے میں کیسز کا بوجھ بڑھ رہا ہے، آج کیس کو ختم کرنا ہے۔

چیف جسٹس کیوں عابد زبیری پر برہم ہوئے؟

دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے وکیل عابد زبیری سے تحریری دلائل جمع کرانے کی بابت دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ تحریری جواب ابھی جمع کرایا ہے، عابد زبیری کی جانب سے دوران سماعت اضافی کاغذات جمع کرانے پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج کیس کی سماعت کا آخری دن ہے، اب کاغذ آرہے ہیں، کیا ایسے نظام عدل چلے گا، کیا دنیا میں ایسے ہوتا ہے، مغرب کی مثالیں آپ دیتے ہیں، کیا وہاں یہ ہوتا ہے؟ آپ جیسے سینئر وکیل سے ایسی توقع نہیں ہوتی۔

عابد زبیری نے اپنے دلائل کے دوران امریکی ریاست نیو جرسی کی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دینے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی بولے؛ کم از کم امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کا تو حوالہ دیں، ہمارا لیول اتنا نہ گرائیں کہ نیو جرسی کی عدالت کے فیصلے کو یہاں نظیر کے طور پر پیش کر رہے ہیں، یہ تو فیصلہ بھی نہیں ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہم یہاں آئین اور قانون سازوں کی نیت دیکھ رہے ہیں، اگر آئین سازوں کی نیت دیکھنی ہے تو آرٹیکل 175 دیکھیں، اگر آئین سازوں نے مکمل اختیار سپریم کورٹ کو دینا ہوتا تو واضح طور پر لکھ دیتے، اگر کوئی بھی ضابطہ قانون یا آئین سے متصادم ہو گا تو وہ خود ہی کالعدم ہو جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وہ سوال واضح کر دیتے ہیں، جوڈیشل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل کے رولز سے متعلق آئین میں لکھا ہے کہ آئینی ادارے خود قوانین بنائیں گے جب سپریم کورٹ کے ضابطوں سے متعلق آرٹیکل 191 میں لکھا ہے کہ قانون سے بھی بن سکتے ہیں، سوال یہ ہے کہ آئین سازوں نے خود آئین کے ساتھ قانون کا آپشن دیا۔

معزز سپریم کورٹ نہیں ججز ہوتے ہیں

عابد زبیری نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے رولز بنانے سے متعلق آرٹیکلز کو تنہا نہیں بلکہ ملا کر پڑھنا ہو گا، اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ یہ مقدمہ سن رہی ہے تاکہ وکلا سے کچھ سمجھ اور سیکھ سکیں، آئینی شقوں پر دلائل دیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئینی شقوں کو ملا کر پڑھنا ہوتا ہے، آئین کے کچھ آرٹیکل اختیارات اور کچھ ان اختیارات کی حدود واضح کرتے ہیں، جس پر عابد زبیری بولے؛ یہ تو معزز سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ہے، تاہم چیف جسٹس نے اس موقع پر انہیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ اصطلاحات ٹھیک استعمال کریں، معزز سپریم کورٹ نہیں ہوتی، معزز ججز ہوتے ہیں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے دریافت کیا کہ سپریم کورٹ کے رولز پر پارلیمنٹ نے پابندی لگائی لیکن ہائیکورٹ اور شرعی عدالت کے ضابطوں پر کیوں نہیں، جسٹس اعجاز الاحسن بولے؛ ہائیکورٹس اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر بنانے کے لیے خود بااختیار ہیں۔

عابد زبیری نے مؤقف اپنایا کہ اگر آج بھی سپریم کورٹ اپنے رولز خود بنالے تو کوئی اعتراض نہیں اٹھا سکتا، آئین کہتا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل اپنے قوانین خود بنائے گی جن کی وقعت آئینی ضوابط کے برابر ہو گی، جسٹس منیب اختر بولے؛ کیا وفاقی شرعی عدالت اپنے رولز بنانے کے اختیار میں سپریم کورٹ سے بھی اونچی سطح پر ہے؟ جس پر عابد زبیری کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اگر اپنے رولز خود بنائے تو وہ تمام رولز سے اونچی سطح پر ہوں گے۔

آرٹیکل 184/3 پر بحث

دوران سماعت چیف جسٹس نے پاکستان میں آرٹیکل184/3 کے استعمال، ماضی اور اس کے ذریعے ہیومن رائٹس سیل بننے سے متعلق کہا کہ اس بات پر تو آپ آنکھیں بند کر کے بیٹھ گئے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس سے پہلے کہ دنیا مجھ پر انگلی اٹھائے میں خود اپنے اوپر انگلی اٹھا رہا ہوں، آپ یہ تو کہہ دیں کہ سپریم کورٹ کے ایک چیف جسٹس نے اگر غلطی کی تو پارلیمنٹ اس کو درست کر سکتی ہے یا نہیں؟ نیو جرسی نا جائیں، پاکستان کی ہی مثال دے دیں۔ سپریم کورٹ غلطی کر دے تو کیا پارلیمنٹ اس کو درست کر سکتی ہے؟

چیف جسٹس کے استفسار پر عابد زبیری نے واضح کیا کہ وہ پی ٹی آئی کی نہیں بلکہ سپریم کورٹ بار کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ انہوں نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ سے متفق ہوں کہ آرٹیکل 184/3  کا غلط استعمال ہوتا رہا۔

چیف جسٹس بولے؛ اس مقدمے کو بھی ہم آرٹیکل 184/3 کے تحت سن رہے ہیں، آپ کے مطابق آرٹیکل 184/3 کا دائرہ اختیار نہ پارلیمنٹ بڑھا سکتی ہے اور نہ ہی سپریم کورٹ تو پھر ہم یہ کیس کیوں سن رہے ہیں، سپریم کورٹ خود مقدمات میں آرٹیکل 184/3 کا دائرہ بڑھائے تو ٹھیک پارلیمنٹ بڑھائے تو غلط ہے۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ اگر انکم ٹیکس آرڈیننس یا فیملی رائٹس میں ترمیم ہو تو کیا براہ راست سپریم کورٹ میں درخواست آ سکتی ہے؟ عابد زبیری بولے؛ بالکل آ سکتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ان کا جواب نوٹ کر رہے ہیں کہ بنیادی حقوق کے علاوہ بھی قانون سازی براہ راست سپریم کورٹ میں چیلنج ہو سکتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے یہ بتا دیں، جس پر عابد زبیری بولے؛ سپریم کورٹ میں اپیل کا حق صرف آرٹیکل 185 کے تحت ہے، آئین کے اصل دائرہ اختیار 184/3 میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا۔

جس پر چیف جسٹس بولے؛ اس کی جوابی دلیل میں یہ دے سکتا ہوں کہ آرٹیکل 184/3 کا استعمال کیسے ہوا، کسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ ہو جائے تو کیا اس کے خلاف اپیل نہیں ہونی چاہیے، پارلیمنٹ نے اچھی نیت سے قانون سازی کی، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن بولے؛ اگر پارلیمنٹ کے لیے دروازہ کھول دیتے ہیں تو وہ سپریم کورٹ کے ہر معاملے میں مداخلت کرے گی، ایک بار دروازہ کھل گیا تو اس کا کوئی سرا نہیں ہو گا۔

جسٹس اعجازالاحسن  نے ریمارکس دیے کہ قانون سازی اچھی یا بری بھی ہو سکتی ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ قانون سازی درست ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اس کو کالعدم قرار دے دیں، آئین اس طرح سے نہیں چل سکتا، چیف جسٹس بولے؛ ماضی کو دیکھیں، ایک شخص آتا ہے اور پارلیمنٹ کو ربر اسٹیمپ کر دیتا ہے، امریکہ میں یہ سب نہیں ہوتا، ہمارا ماضی بہت بوسیدہ ہے، سپریم کورٹ بار خود تو درخواست لے کر نہیں آئی۔

وکیل عابد زبیری نے شکوہ کیا کہ سپریم کورٹ بار نے جو درخواستیں کیں وہ تو مقرر نہیں ہو رہیں، جس پر چیف جسٹس بولے؛ آپ اس کیس کو ختم کریں تو باقی مقرر ہوں،

جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ ایکٹ کے ذریعے آئین میں سادہ اکثریت سے بالواسطہ ترمیم کر کے دروازہ کھولا جا رہا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 184 تھری کے اختیار کو آئین میں رہ کر استعمال کیا گیا ہوتا تو ایسی قانون سازی نا ہوتی، جسٹس مظاہر نقوی نے کہا، آرٹیکل 184 تھری میں اپیل سے اصل دائرہ اختیار کے کیس کی دوبارہ سماعت کا حق کیسے دے دیا گیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو تو کہتے ہیں نمبر گیم پوری ہونی چاہیے لیکن فرد واحد آ کر آئینی ترمیم کرے تو وہ ٹھیک ہے، پارلیمنٹ کچھ اچھا کرنا چاہتی ہے تواس کو کچلنا کیوں چاہتے ہیں، ہم بھی مانتے ہیں کہ صوبائی اسمبلیوں کو ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں ہے، بس اب دلائل ختم کریں، یہ تاثر مت دیں کہ آپ یہ کیس ختم کرنا نہیں چاہتے۔

وقفہ کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز

درخواست گزار عمر صادق کے وکیل عدنان خان نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کو ایکٹ کے ذریعے سپریم کورٹ کے رولز بنانے کا اختیار حاصل نہیں، آئین سازوں نے دانستہ طور پر پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے ضابطوں میں رد و بدل کا اختیار نہیں دیا، پارلیمنٹ نے چیف جسٹس کے آفس کو بےکار کر دیا ہے۔

وکیل عدنان خان نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ دو بنیادوں پر کھڑا ہے، ایک چیف جسٹس اور دوسرا باقی ججز، جس پر جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ ایسے تو فل کورٹ بلانے کی کیا ضرورت ہے صرف چیف جسٹس کیس سن لیتے۔ چیف جسٹس بولے؛ چیف جسٹس کو جہاں اختیارات دیے گئے وہ آئین میں درج ہیں، چیف جسٹس کو سپریم کورٹ کے سوا کہاں تنہا اختیارات دیے گئے ہیں۔

آئین کہتا ہے چیف جسٹس خود بغیر کسی مشاورت کے بنچز بنا سکتا ہے، اگر دو ججز کہتے ہیں کہ اگلے ہفتے سے بنچ نہیں بنانے صرف چیمبر ورک کرنا ہے تو چیف جسٹس کے اختیارات بےکار ہوں گے، اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ بولے؛ آپ ابھی تک مستقبل کا بتا رہے ہیں،  ابھی اس قانون سے آپ کا کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے، آپ ہمارے سامنے اپنے کون سے بنیادی حق کا دفاع کر رہے ہیں۔

وکیل عدنان خان نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے انصاف تک رسائی کے آرٹیکل 4 کی خلاف ورزی ہوئی، پارلیمنٹ کو قانون سازی کا کوئی اختیار نہیں ہے اور اس سے تمام بنیادی حق متاثر ہوتے ہیں۔ عدنان خان نے عدالت کو ریفرنس جمع کرانے کی یقین دہانی کراتے ہوئے اپنے دلائل مکمل کئے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اپنے اختیارات سے تجاوز کرے تو قانون سازی سے درست نہیں کیا جا سکتا، یہاں بار کے انتخابات جتنا مشکل ہے وہاں دو تہائی اکثریت کے لیے نمبر ون کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے، سپریم کورٹ کے یہ تمام فیصلے آرٹیکل 184/3 کے دائرہ کار میں کیا درست ہیں؟

درخواست گزار محمد شاہد رانا ایڈووکیٹ نے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ کو آرٹیکل 184/3 کے تحت مفاد عامہ کے مقدمات کی سماعت کرنی چاہیے مفاد خاص کے نہیں، اللہ نے تمام حکم دلیل کے ساتھ دیے تو قانون سازی بغیر دلیل کے کیسے ہو سکتی ہے۔

وکیل امتیاز صدیقی کا شکوہ، چیف جسٹس برہم

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا تو وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کے لیے وقت نہ دینے پر اعتراض اٹھادیا، جس پر چیف جسٹس اور مذکورہ وکیل کے درمیان تلخی پیدا ہوگئی۔ امتیاز صدیقی بولے؛ آپ نے کہا تھا کہ پہلے ہمیں سنیں گے پھر اٹارنی جنرل کو سنیں گے، ہمیں نہ سننا ناانصافی ہے۔

جس پر چیف جسٹس بولے؛ کہاں لکھا ہے حکمنامے میں کہ آپ کو ابھی سننا ہے، امتیاز صدیقی بولے؛ آپ ہمارے ساتھ اپنا سلوک دیکھیں، چیف جسٹس بولے؛ کوئی بات کرنے کی تمیز بھی ہوتی ہے، پچھلی سماعت کا تمام ججز کے دستخط کے ساتھ جاری حکم نامہ میں درج ہے کہ امتیاز صدیقی کے دلائل مکمل ہو چکے اور وہ مزید دلائل دینا نہیں چاہتے۔

امتیاز صدیقی نے کہا کہ ان کے ساتھی خواجہ طارق رحیم چیف جسٹس کے رویے کی وجہ سے آج عدالت نہیں آئے اور انہوں نے یہ پیغام عدالت تک پہنچانے کا کہا تھا، جس پر چیف جسٹس نے سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی نشست پر بیٹھ جائیے ورنہ کچھ ایشو کر دیں گے، اس وارننگ پر امتیاز صدیقی اپنی نشست پر براجمان ہو گئے۔

ق لیگ کے وکیل زاہد ابراہم کے دلائل

وکیل زاہد ابراہم نے فل کورٹ کو بتایا کہ سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی کا اختیار آرٹیکل 142 سے نکلتا ہے، آئین پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی کے لیے کھلا اختیار بھی نہیں دیتا، جسٹس محمد علی مظہر نے دریافت کیا کہ کیا فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ کی اینٹری 55 کا یہاں کوئی عمل دخل نہیں ہو گا؟

وکیل زاہد ابراہیم نے موقف اختیار کیا کہ فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ کی اینٹری 55، 59 کے ساتھ آرٹیکل 191 کو دیکھیں، اس عدالت نے جسٹس انور بھنڈر کیس میں آرٹیکل 188 سے متعلق کہا کہ سپریم کورٹ کے اختیارات کم نہیں کیے جا سکتے۔

جس پر جسٹس منیب اختر بولے؛ اسی فیصلے کے اگلے حصے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ رولز کو بہتری کے لیے پارلیمنٹ بدل بھی نہیں سکتی، ایک جملے پر انحصار نہ کریں، پورا فیصلہ پڑھیں، جن فیصلوں کا حوالہ آپ دے رہے ہیں وہ ان ضوابط سے متعلق ہیں جن کا اختیار پہلے سے قانون دیتاہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ان کا قلم ہوا میں رہ جاتا ہے لہذا وہ پہلے اپنا پوائنٹ پورا کر دیں، جسٹس یحیٰی آفریدی بولے؛ آپ فل کورٹ کو اپنی رائے بتا دیں، جس پر زاہد ابراہیم کا کہنا تھا کہ یہ کیس خود تسلیم کر رہا ہے کہ پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتی ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے دریافت کیا کہ کیسے ممکن ہے کہ ’سبجیکٹ ٹو لا‘ لکھ کر پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے رولز پر قانون سازی کا اختیار دے دیا گیا ہو ، آرٹیکل 188 اور آرٹیکل 191 میں فرق ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ قانون سازی کے اختیار کے تحت آرٹیکل 191 کہتا ہے کہ سپریم کورٹ رولز قانون سے بدلے جا سکتے ہیں، چیف جسٹس نے وکیل زاہد ابراہیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ضروری نہیں کہ آپ سب کے دلائل سے متفق ہوں، جسٹس منیب اختر بولے؛ بینچ میں بیٹھے جج کو حق حاصل ہے کہ وہ سوال کرے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کو موجودہ قانون کا دائرہ بڑھانے کا اختیار ہے، اپیل کا حق دے کر قانون کا دائرہ کیسے بڑھایا گیا، قانون سازی کے ذریعے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں کچھ شامل کیسے کیا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے کام کے طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، عدلیہ کی مائیکرو مینجمنٹ مداخلت نہیں تو پھر کیا مداخلت ہوگی۔

جسٹس منیب بولے؛ بار بار آپ کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ کے پاس شروع سے رولز سے متعلق قانون سازی کا اختیار تھا، جسٹس محمد علی مظہر نے دریافت کیا کہ دائرہ اختیار کو بڑھانے کو آرٹیکل 175 شق 4 کے ساتھ ملا کر پڑھا جا سکتا ہے یا نہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ اپیل تو ایک ضابطے کا معاملہ ہے یا کسی کا بنیادی حق ہے۔

زاہد ابراہیم کا موقف تھا کہ اپیل بنیادی حق ہے، اسلام بھی پابند کرتا ہے کہ اپیل کا حق ملنا چاہیے، اس موقع پر چیف جسٹس بولے؛ آپ کوئی دلائل تو دیں جنہیں ہم درج کر لیں۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے پہلے سے موجود اختیار کو بڑھایا گیا ہے، ماضی میں کئی بار وکلا نے سپریم کورٹ کی جانب سے اپنے آرٹیکل 184/3 کے اختیار کے غلط استعمال کی شکایت کی ہے۔

جسٹس منیب اخترنے دریافت کیا کہ اس قانون کے بعد ماسٹر آف روسٹر کون ہے، جس پر زاہد ابراہیم کا موقف تھا کہ کمیٹی فیصلہ کرے گی، جسٹس منیب اختر بولے؛ نکتہ یہ ہے کہ موجودہ سمیت کسی بھی صورتحال میں پارلیمنٹ ماسٹر آف روسٹر بن جائے گی۔ چیف جسٹس بولے؛ کیا ماسٹر آف روسٹر کا لفظ کس قانون میں ہے، رولز میں چیف جسٹس کے بینچ مقرر کرنے کا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ بولے؛ دنیا میں اب کہیں بھی ماسٹرز نہیں، اگر ایک شخص کے پاس بینچز کی تشکیل کا اختیار کیس کا نتیجہ متاثر کرسکتا ہے تو 3 بھی ہو سکتے ہیں، چیف جسٹس بولے؛ یہ پیغام اس عدالت سے نہیں جانا چاہیے کہ آئین و قانون کا انحصار چیف جسٹس کی خواہشات پر ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو قانون ہے، آئین ہے وہ چیف جسٹس کی خواہشات پر نہیں، یہ عدلیہ کی آزادی اور قانون کے منافی ہے، میں ماسٹر نہیں آئین کے ماتحت ہوں۔

مسلم لیگ ن کے وکیل کے دلائل

مسلم لیگ ن کے وکیل صلاح الدین نے جسٹس ر آصف سعید کھوسہ کے آرٹیکل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ بینچ کے 10 ارکان بھی چیف جسٹس کے اختیارات پر آواز اٹھا چکے، جس پر جسٹس منیب اختر بولے؛ کیا اس کا یہ مطلب ہے پارلیمنٹ کو اختیار مل گیا، کس کی کیا رائے ہے وہ الگ بات ہے، کیا پارلیمنٹ ماسٹر آف روسٹر ہے اس نکتے پر آئیں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے بیرسٹر صلاح الدین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جو دلائل دے رہے ہیں وہ کیا شخصیات کی حد تک ہیں، آپ اس نکتے پر آئیں جو ہمارےسامنے ہے، صلاح الدین نے کہا کہ بینچ کی تشکیل کرنے کی پاور کوئی آئینی پاور نہیں ہے۔

جسٹس منیب اخترنے بیرسٹر صلاح الدین سے دریافت کیا کہ انہوں نے 1861 کا انڈیا ایکٹ دیکھا ہے، تاہم ان کے منفی جواب پر جسٹس منیب اختر بولے؛ میں آپ کو بتاتا ہوں اس پاور کا آغاز وہیں سے ہوتا ہے، برطانوی راج کا آغاز ہونے کے بعد 1861 میں پہلا قانون بنایا گیا، آئینی تاریخ دیکھیں تو ماسٹر آف روسٹر کے معاملے میں مداخلت پر واٹر مارک ہے۔

ایکٹ میں جو اپیل کا حق دیا گیا اس پر آپ کیا کہیں گے؟ جسٹس مظاہر نقوی کے سوال پر بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ قانون سازی سے اپیل کاحق دیا جا سکتا ہے، جسٹس مظاہر نقوی بولے؛ آپ کے مطابق کیا یہ قانون سازی دو تہائی سے ہونی ہے؟ بیرسٹر صلاح الدین کا موقف تھا کہ سادہ قانون سازی سے ہی یہ ممکن ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے دریافت کیا کہ آیا پھر سادہ قانون سے عدالتی فیصلوں کی تشریحات بھی بدلی جا سکتی ہیں؟ جس پر صلاح الدین فوراً بولے؛ نہیں انہیں تبدیل نہیں کیا جا سکتا، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ آپ پھر آرٹیکل 191 کو بے کار کر رہے ہیں، آرٹیکل 191 واضح طور پر کہتا ہے رولز سپریم کورٹ بنائے گی۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ یہ ایکٹ سپریم کورٹ کو ڈکٹیشن دے رہا ہے، ایکٹ کہتا ہے اتنے رکنی کمیٹی ہو اتنا رکنی بنچ بنائے، سپریم کورٹ کو ڈکٹیٹ کرنا کہ بزنس کیسے چلاؤ یہ عدلیہ میں مداخلت نہیں تو کیا ہے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ بولے؛ کیا پارلیمنٹ قانون سازی کی مجاز ہے یا نہیں، اگر پارلیمنٹ مجاز ہے تو پھر اسے ڈکٹیشن نہ کہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ایکٹ کے ذریعے چیف جسٹس کے ساتھ 2 معاون پائلٹ ہی لگائے گئے ہیں، ہم اپنے سائے اور معاون پائلٹس سے گھبراتے کیوں ہیں، سوال یہی ہے پارلیمنٹ اس قانون سازی کی مجاز ہے یا نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بینچوں سے متعلق جو شکایات اور مسائل سپریم کورٹ ہیں وہ ہائیکورٹس میں نہیں دیکھے، کیا یہ کہا جائے ہائیکورٹس سپریم کورٹ سے بہتر چل رہی ہیں، جس پر بیرسٹر صلاح الدین بولے؛ یہ ہائیکورٹ ٹو ہائیکورٹ اور چیف جسٹس ٹو چیف جسٹس دیکھا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس بولے؛ یہ نہیں کہا جا سکتا پارلیمنٹ نے بدنیتی سے یہ کر دیا آوازیں تو وکلا اٹھا رہے تھے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سابق چیف جسٹس صاحبان کیخلاف باتیں یہاں نہ اٹھائی جائیں، مجھے شدید تحفظات ہیں ، جو یہاں اپنا دفاع کرنے موجود نہیں ان کا معاملہ نہ اٹھایا جائے۔

وقفہ کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ تک محدود کر دیا گیا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا پارلیمنٹ کا ذکر کچھ لوگ ہتک آمیز طریقے سے کرتے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ بولے؛ پارلیمنٹ پاکستان کے عوام کی نمائندہ ہے، کیا عوام نہیں کہہ سکتے کورٹ کیسے چلے وہ تو اصل ٹرسٹی ہیں۔

ن لیگ کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس ایکٹ کو ماننے سے غلط قانون سازی کا راستہ کھلے گا، کل کو اگر کوئی خلاف آئین قانون بنا تو عدالت اسے کالعدم کر سکتی ہے، پارلیمنٹ کا اختیار ہونا نہ ہونا اور قانون سازی کی آئین سے مطابقت الگ چیزیں ہیں۔

بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 67 کو دیکھیں، اٹارنی جنرل نے بھی آرٹیکل 67 کا حوالہ دے رکھا ہے، آئینی دستاویزات کی تشریح کے وقت کبھی کبھی بہت معمولی چیزوں پر ہم زیادہ انحصار کر رہے ہوتے ہیں، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن بولے؛ سبجیکٹ ٹو لاء کے الفاظ کچھ پابندیاں عائد کرتے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل کا حق موجود ہے، اس کے باوجود ہائیکورٹ کے اندر ہی انٹراکورٹ اپیل کا حق بھی دیا گیا، چیف جسٹس نے ن لیگ کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ صلاح الدین آج آپ آخری وکیل ہیں، باقی وکلا کو کل دن ساڑھے 11 بجے سنا جائے گا، جس کے بعد کیس کی سماعت کل (منگل) تک ملتوی کر دی گئی۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیا ہے؟

سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ اب تک 2 اور لارجر بینچ اس کیس کی 5 سماعتیں کر چکا ہے، لارجر بینچ 13 اپریل کو پہلی سماعت میں ہی قانون پر حکم امتناع دے چکا ہے۔

ایکٹ کے تحت ازخود نوٹس، بینچ تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کی سربراہی میں 2 سینئر ججز کی کمیٹی کو دیا گیا ہے، کیس سماعت کے لیے مقرر کرنے کا اختیار بھی کمیٹی کو دیا گیا ہے، متاثرہ فریق کو ایک ماہ میں اپیل کا حق، وکیل تبدیل کرنے کی اجازت بھی دی گئی  ہے،ازخود نوٹس کے مقدمات میں ماضی کے فیصلوں پر اپیل کا حق بھی دیا گیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp