عام طو ر پر صحافی حضرات سرکار اور سرکاری محکموں کی کرپشن کے بارے میں لکھتے ہیں۔ لیکن میری نظر سے شاید ہی کوئی ایسی تحریر گزر ی ہو کہ جس میں پرائیویٹ سیکٹر میں ہونے والی زیادتیوں کے متعلق کسی نے کچھ لکھا ہو۔ اس لیے سوچا کہ اپنے مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر کچھ تحریر کیا جائے۔
لیبر قوانین کی خلاف ورزیاں:
ویسے تو کسی بھی سیکٹرمیں حکومتی رٹ دیکھنے کو کم ہی ملتی ہے لیکن پرائیویٹ سیکٹر میں حکومت کی رٹ کہیں نظر ہی نہیں آتی۔ اس کی سب سے پہلی اور اہم وجہ اسے چیک کرنے والے سرکاری اداروں میں ہونے والی بدعنوانیاں ہیں۔ جن حکومتی اداروں کو پرائیویٹ سیکٹر یعنی انڈسٹریز اور دیگر بڑے کاروباری اداروں میں لیبر قوانین، سوشل سیکیورٹی اور ای۔ او۔ بی۔ آئی کے رولز اینڈ ریگولیشن کی خلاف ورزیوں کو چیک کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے وہاں چیکنگ کے بہانے ”اپنا حصہ“ لے کر ”سب اچھا ہے“ کا بوگس سرٹیفکیٹ جاری کر دیا جاتا ہے۔ حکومت نے موجودہ برس میں عام ورکرز اور مزدور کی کم از کم تنخواہ بتیس ہزار مقرر کی ہے لیکن پرائیویٹ سیکٹر میں مزدور کو آج بھی اٹھارہ سے پچیس ہزار ہی بمشکل ملتے ہیں۔
اس کے لئے طریقہ کار یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ مزدور اورورکر کویا تو از خود یا پھرکنٹریکٹرز کے ذریعے عارضی طور پر بھرتی کیا جاتا ہے تاکہ وہ ان رولز اینڈ ریگولیشن کی زد میں نہ آ پائیں اور ان کو اپنی مرضی کی کم سے کم تنخواہ ادا کی جائے۔ جب کہ اکثریتی نجی اداروں میں اپنے اسٹاف سے بارہ، بارہ گھنٹے سے بھی زیادہ کام لیا جاتا ہے۔بڑھتی بے روزگاری کے خوف سے نجی اداروں میں کام کرنے والے افراد عام تعطیل والے دن بھی کام کر لیتے ہیں جس کا کسی قسم کا معاوضہ یا اوور ٹائم نہیں دیا جاتا۔ کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ ملازمین مجبور ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انکار کی صورت میں وہ اپنی نوکری گنوا سکتا ہے اس لیے نہ انکار کر سکتا ہے او رنہ ہی اس زیادتی کے خلاف کوئی آواز اٹھا سکتا ہے۔
سندھ شاپس اینڈ کمرشل اسٹیبلشمنٹ ایکٹ،2015
گو کہ ان زیادتیوں کو روکنے اور انہیں چیک کرنے کے لیے ”سندھ شاپس اینڈ کمرشل اسٹیبلشمنٹ ایکٹ، 2015“ موجود ہے لیکن اس ایکٹ پر عمل درآمد شاید ہی کسی کمرشل یا پرائیویٹ اسٹیبلشمنٹ میں ہوتا ہو۔ ”کمرشل اسٹیبلشمنٹ“ کا مطلب ہے کوئی بھی ایسا کام، پیشہ یا شعبہ جو کاروبار یا بزنس سے متعلق ہو۔اس ایکٹ کے تحت کوئی بھی ملازم یا مزدور ایک سال مستقل کام کرنے کے بعد 14 دن کی چھٹی کا حقدارہوتا ہے۔ جب کہ ایک سال میں اسے 10 دن عمومی چھٹیاں، 8 دن بیماری کی صورت میں چھٹیاں اور 10 دن تک چھٹی کسی بھی تہوار کو منائے جانے کے لیے دی جانی ضروری ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب چھٹی مانگی جائے تو بہت حیل و حجت کے بعد ہی کہیں جا کر منظور ہوتی ہے۔ گویا یہ اس ملازم کا حق نہ ہو بلکہ اس پر احسان کیا گیا ہو۔ اس ایکٹ کی دفعہ 8 کے تحت رات 8 بجے کے بعد کسی بھی کمرشل اسٹیبلشمنٹ میں کام نہیں لیا جاسکتا لیکن یہاں دیکھا گیا ہے کہ دن کی ڈیوٹی کرنے والے رات گئے تک کام سر انجام دیتے ہیں اور صبح انہیں پھر اپنے مقررہ وقت پر ہی کام پر آنا ہوتا ہے ۔ دفتری میں چپڑاسی بھرتی کیے گئے شخص سے دفتری کامو ں کے علاوہ لوڈنگ اور صفائی تک کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ حتی کے کمپنی کے مالکان اور ایگزیکٹوز کے گھروں کے کام بھی سر انجام دینا پڑتے ہیں جسے ہم ”بے گار“ کا نام بھی دے سکتے ہیں جس کا عموما کوئی اضافی معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ جب کبھی پوچھا جائے کہ ایسا کیوں کیا جاتا ہے تو جواب یہی ملتا ہے ” ہر جگہ ایسا ہی ہوتا ہے“۔ اور چونکہ کسی سرکاری محکمے کی جانب سے چیک کیے جانے کا کوئی خوف بھی نہیں ہے۔ یہ مالکان اور ایگزیکٹیوز بے لگام گھوڑے کی مثال بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ اول تو کوئی مزدور یا ورکر جس کی مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے اتنی استطاعت ہی نہیں رکھتا کہ کسی زیادتی کے خلاف یا اپنا کوئی حق لینے کے لئے عدالت سے رجوع کرے لیکن اگر کوئی ان زیادتیوں کے خلاف لیبر کورٹ جانے کی گستاخی اور ہمت کر ہی بیٹھے تو اسے انصاف ملنے کی چنداں امید نہیں ہوتی۔مزدور یونینز کا بھی دور دور تک کچھ پتہ نہیں چلتا جو مزدوروں کی آواز بن سکیں۔ اگر کوئی ایسی مزدور یونین ہے بھی تو وہ ورکرز اور مزدوروں کے مسائل حل کرنے کے بجائے مالکان سے معاملات طے کر لینابہتر سمجھتی ہے۔
ورکرز کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
قانون کہتا ہے کہ ایک ہفتے میں کم از کم ایک دن کوئی بھی کمرشل اسٹیبلشمنٹ مکمل طور پر بند رکھی جائے گی۔ لیکن ایسا کئی جگہوں پر نہیں ہورہا۔ اتوار کی ہفتہ وار چھٹی والے دن حتی کہ ”عام تعطیل“ والے دن بھی ملازمین کو بلا لیا جاتا ہے۔ ان چھٹی والے دنوں میں کام لینے کا کوئی اوور ٹائم یا معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ بیشتر کمرشل اسٹییبلشمنٹ میں چوکیدار اور گارڈز کو رکھا ہی اس شرط پر جاتا ہے کہ انہیں کوئی چھٹی نہیں ملے گی یعنی ایک ماہ میں تیس دن اور ایک دن میں بارہ گھنٹے کام کرنا ہو گا جو نہ صرف ان قوانین کی صریح خلاف ورزی میں شمار ہوتا ہے بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔ میں نے تو بعض پرائیویٹ کمپنیوں اور فیکٹری مالکان کو اپنے دفتری ملازمان سے اپنی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کے لئے بھی کام لیتے دیکھا ہے جو اسے ہر صورت میں کرنا پڑتا ہے کیونکہ جو بولے وہ نوکری سے ہاتھ دھو لے۔
چونکہ نوٹس دینا ضروری ہےتاکہ کوئی عدالت نہ چلا جائے اس لیے دس سے پندہ سال پرانے ملازمین کو بیک جنبش قلم ایک ماہ کا نوٹس دے کر نوکری سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔ ایسا کرتے وقت یہ مالکان ایک لمحے کو بھی ایسے ورکر کی گذشتہ خدمات کو ذہن میں نہیں لاتے یا شاید سرمایہ دار کو مزدور کی مشقت دکھائی نہیں دیتی۔ موجودہ بدترین معاشی حالات میں کوئی ذی ہوش شخص جس پر اپنی پوری فیملی کو پالنے کی ذمہ داری ہو کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کی نوکری ہاتھ سے جائے اس لیے خاموشی کے ساتھ ہر قسم کی زیادتی سہہ لی جاتی ہے۔
:ٹیکس چوری
اگر کرپشن کی بات کی جائے تو پرائیویٹ سیکٹر کی اکثریت اربوں روپے کی ٹیکس چوری میں ملوث ہے۔ بے شمار ایسے ادارے ہیں جہاں کسی سروس کی ادائیگی کرتے ہوئے سیلز ٹیکس یا انکم ٹیکس تو منہا کر لئے جاتے ہیں لیکن حکومت کو ادا نہیں کیے جاتے۔ کمرشل اسٹیبلشمنٹ اس بات کی پابند ہے کہ وہ اپنے تمام ملازمین کو ایمپلائز سوشل سیکیورٹی کے ادارے میں رجسٹر کروائے اور پھر باقاعدگی سے ایمپلائز سوشل سیکیورٹی کو اپنے حصے کی رقم بھی ادا کرتا رہے۔ ایمپلائز سوشل سیکیورٹی آرڈیننس 1965 کے تحت ہر پرائیویٹ ادارہ اپنے ملازمین کو دی جانے والی کم سے کم تنخواہ کا 6 فیصد ایمپلائز سوشل سیکیورٹی کے ادارے کوماہانہ ادا کرنے کا پابند ہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ پرائیویٹ کمپنیز یہ ادائیگیاں کرتی تو ہیں لیکن یہاں بھی چوری کی جاتی ہے کیونکہ کم و بیش ہر کمپنی اپنے ملازمین کی تعداد کم ظاہر کرتی ہیں تاکہ سوشل سیکیورٹی کو دی جانے والی رقم کم سے کم ہو۔ یعنی اگر کسی کمپنی کے ملازمین کی تعداد پانچ ہزار ہے تو وہ بمشکل دو ہزار ملازمین کا ڈیٹا سوشل سیکورٹی کے ادارے کے ساتھ شئیر کرتی ہے۔ اسی طرح ایمپلائیز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن کے قوانین کے تحت کوئی بھی کمپنی اپنے ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے ملازمین کے لئے ای۔ او۔ بی۔ آئی کوماہانہ چھ فیصد رقم ادا کرنے کی پابند ہے جب کہ ایک فیصد رقم ان ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی کر کے ای۔ او۔ بی۔ آئی کو دینا لازمی ہے۔ جس کی بنیاد پر یہ انسٹیٹیوشن ان ملازمین کی ماہانہ پینشن کی ادائیگیاں کرتا ہے۔ یہاں بھی چوری کا وہی فارمولہ اختیار کیا جاتا ہے کہ ملازمین کی تعداد ان کی اصل تعداد سے کہیں کم کر کے دکھائی جاتی ہے۔ اور سال کے اختتام پر جب ان سیسی اور ای۔ او۔ بی۔ آئی کے انسپکٹرز اور افسران آڈٹ کے لئے ان کمپنیوں کا وزٹ کرتے ہیں تو وہاں ان کی خدمت کے عوض من پسند آڈٹ رپورٹ حاصل کی جاتی ہے جس میں کمپنیوں کے دیئے گئے ڈیٹا کی تصدیق کی جاتی ہے۔ اس مد میں بھی یہ پرائیویٹ کمپنیاں اپنے لاکھوں روپے کی بچت کرتی ہیں۔ ایک ایسی ہی کمپنی کے مالک سے جب میں نے یہ پوچھاکہ ایسا کیوں کیا جاتا ہے،یہ تو مزدور اور ورکر کا قانونی حق ہے؟ تو جواب دیا،”حکومت کے خزانے میں جا کر بھی یہ پیسہ کرپشن کی نذر ہی ہونا ہے تو ہم کیوں ان کو پوری رقم ادا کریں“۔ لیکن جب ان سے یہ سوال کیاجائے کہ پھر خود آپ لوگ اپنی کمپنی کے ملازمیں کی فلاح وبہبود کے لئے کیا کرتے ہیں تو یہ مالکان بغلیں جھانکنے لگ جاتے ہیں یا پھر کوئی جھوٹا ڈیٹا پیش کر دیتے ہیں کہ ہم نے ان ملازمین کی فلا ح کے لئے اتنا خرچ کیا۔
اب اگر ملازمین سے تصدیق کرنے کو کہا جائے تو وہ بیچارے ان کی ہاں میں ہاں ملانے کے سواکر ہی کیا سکتے ہیں۔ کیونکہ بصورت دیگر ان کی ہاتھ میں نوکری سے برخاستگی کا پروانہ پکڑا دیا جاتا ہے۔یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ یہاں کوئی دودھ کا دھلا نہیں ، سرکاری محکمہ ہو یا پرائیویٹ، اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور مزدور یونینز نے بھی اپنے معاملات پرائیویٹ سیکٹر کے مالکان سے طے کیے ہوتے ہیں اس لیے ان کی جانب سے مکمل خاموشی ہوتی ہے۔ بس کبھی کبھار اپنی موجودگی کا ثبوت دینے کے لئے ایک اخباری بیان یا میڈیا میں انٹرویو چلوا دیا جاتاہے۔ شاید اس ملک کو اللہ ہی چلا رہا ہے کیوں کہ بندوں کا تو کوئی کام ایسا نہیں کہ یہ ملک اب تک چل سکتا۔