نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ وہ یقین دلاتے ہیں کہ ملک میں آئندہ عام انتخابات میں کسی بھی ادارے کی کوئی مداخلت نہیں ہوگی۔ 9 مئی کے واقعات کوئی قصہ کہانی نہیں بلکہ حقائق ہیں جنہیں ساری دنیا نے تسلیم کیا ہے، پاکستان تحریک انصاف پر کوئی پاپندی نہیں لگائی گئی، وہ کوئی مغل بادشاہ نہیں جو کسی بھی پارٹی کو انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیں۔
مزید پڑھیں
وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے وزیراعظم ہاوٗس میں صحافیوں سے ملاقات میں سب سے پہلے اسی بات کی وضاحت کی کہ انہوں نے آئفل ٹاور پر کھانا نہیں کھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ آئفل ٹاور پر کوئی ریسٹورنٹ ہے ہی نہیں۔ ’سوشل میڈیا پر میرے خلاف بلاوجہ تنقید کی گئی۔ ہم 7 یا 8 لوگوں نے پیرس میں مل کر ایک ایسے ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا جس کا ٹوٹل بل 4 یا 500 یورو تھا۔
’میں ریاست کا نمائندہ ہوں‘
وزیراعظم نے کہا کہ جب وہ بلوچستان حکومت کے ترجمان تھے تب بھی وہ یہی کہتے تھے وہ حکومت نہیں بلکہ ریاست کے نمائندے ہیں۔ ’میں ریاست کو ہیرو مانتا ہوں اور یہ مانتا ہوں کہ طاقت کا استعمال صرف ریاست کا اختیار ہونا چاہیے‘۔
وزیراعظم نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ ملک میں تقسیم کم ہونی چاہیے۔ کسی بھی معاشرے میں مسلح جدوجہد کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ بلوچستان کا امن وہاں کی عسکری تنظیموں نے خراب کر رکھا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا امن پسند لوگوں کا یہ حق نہیں کہ انہیں عزت سے رہنے دیا جائے؟ ’میں بلوچستان کے علاقے مستونگ میں رہتا ہوں اور ایک بندہ آکر میرے ماتھے میں گولی مار دے تو کیا یہ درست ہے؟ یہ کہنا کہ ہمارے پاس سڑک نہیں تو 6 پنجابی مار دو جو ڈیڑھ سو سال سے وہاں رہ رہے ہیں، کیا یہ درست بات ہے؟
وزیراعظم کاکڑ نے کہا کہ لاپتا افراد کے معاملے کی کوئی حقیقت نہیں، دراصل بلوچستان سے لاپتا افراد کی تعداد 100 سے بھی کم ہے۔ کالعدم تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) میں ایسے ایسے سیریل کلر ہیں جنہوں نے 80 سے 90 قتل کیے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھے لوگ چیلنج کرتے ہیں کہ ہمارے پروگرام میں آؤ ہم ثابت کریں گے کہ لاپتا افراد ہیں‘۔ وزیراعظم نے کہا کہ کئی لاپتہ افراد ریاست نے خود رہا کیے اور کئی ماما قدیر کے حوالے کیے لیکن وہ کبھی اس بات کا ذکر نہیں کریں گے۔
’منصوبوں کا تسلسل سیاسی حکومت کا فیصلہ ہوگا‘
ایک صحافی نے سوال کیا کہ نگراں حکومت جو پالیساں متعارف کروا رہی ہے کیا آپ اس بات پر یقین رکھیں گے کہ جو بھی اگلی سیاسی حکومت آئے وہ ان پالیسیوں کو جاری رکھے گی؟ اس پر وزیراعظم نے کہا کہ جو بھی اگلی سیاسی حکومت آئے گی یہ اس کا استحقاق ہے کہ وہ چاہے تو ان پالیسیوں کو جاری رکھے چاہے تو ترک کردے۔ یہ اس سیاسی حکومت کا فیصلہ ہوگا۔
’میری بات کو توڑ موڑ کر پیش کرنا لوگ اپنا حق سمجھتے ہیں‘
امریکی ادارے اے پی کو دیے گئے اپنے انٹرویو کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے کہیں ایسی بات نہیں کی کہ عمران خان کے بغیر بھی انتخابات ہوسکتے ہیں۔ یہاں مشکل یہ ہے کہ کسی نے میرا اصل انٹرویو پڑھا ہی نہیں۔ اس انٹرویو کا جب کسی نے ترجمہ کیا تو اس نے ایسی بات لکھ دی جس کی وجہ سے مجھ پر تنقید شروع ہوگئی۔
وزیراعظم نے بتایا کہ ’میں نے ایک اخبار کے ایڈیٹر کو فون کیا کہ آپ نے میرے حوالے سے یہ بات غلط لکھی ہے لیکن انہوں نے تردید کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ وزیراعظم کاکڑ کا کہنا تھا کہ میری بات کو توڑ موڑ کر پیش کرنا اور الزام تراشی کرنا لوگ اپنا حق سمجھتے ہیں‘۔
’میں مغل بادشاہ نہیں جو پی ٹی آئی کو انتخابات میں حصہ لینے سے روک دوں گا‘
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) الیکشن کمیشن میں قانونی طور پر رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے۔ ان کے سپورٹرز ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ’میں کوئی مغل بادشاہ نہیں ہوں کہ ان کو انتخابات میں حصہ لینے سے روک دوں گا۔ میں اور میری کابینہ کسی بھی سیاسی جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے والی کون ہوتی ہے؟
وزیراعظم نے اس بات کی تردید کی کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے کوئی ڈیل کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات کے لیے قوانین بنانا سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری تھی لیکن پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) خود ناراض ہوکر پارلیمنٹ سے نکل گئی، اگر وہ پارلیمنٹ میں ہوتی تو اس نگران حکومت میں ان کی مشاورت شامل ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی مکالمے میں مختلف باتیں ہوتی ہیں لیکن ہمارا کام یہ ہے کہ کسی کی حمایت نہ کی جائے۔
انتخابات میں ادارہ جاتی مداخلت نہیں ہوگی
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ بطور نگران وزیراعظم ہمارا کام انتخابات کروانا ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ سیاسی جماعتیں جوڑ توڑ کرتی ہیں، کہیں نا کہیں انتخابات جیتنے کے لیے کچھ ناجائز ذرائع بھی استعمال کیے جاتے ہیں لیکن ایک بات کا یقین دلاتا ہوں کہ اس بار انتخابات میں ادارہ جاتی یا انسٹیٹیوشنل مداخلت نہیں ہوگی۔
صرف غیر قانونی افغانوں کو ملک بدر کرنے کی بات کی جا رہی ہے
نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ہم افغان مہاجرین نہیں بلکہ صرف غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کو ملک سے نکالنے کی بات کر رہے ہیں لیکن پتہ نہیں یہ بات کیوں کی جارہی ہے کہ افغان مہاجرین کو ملک سے نکالا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس حوالے سے اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) اور بین الاقوامی معاہدوں کے پاپند ہیں اور اس حوالے سے کوئی ہم پر دباؤ بھی نہیں ڈال سکتا۔ ایک گھر میں بھی داخل ہونے کے لیے آپ کو اجازت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہ کیسا گھر ہے کہ یہاں سب بلا اجازت چلے آ رہے ہیں۔
ماضی کی حکومتوں نے ایسے معاہدے کیے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے
نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ہم تو ملک کی معاشی مشکلات کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مہنگی بجلی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم بہت مہنگی بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ ڈسکوز والے کارٹل بن چکے ہیں اور بہت جلد ڈسکوز کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ماضی میں کچھ ایسے ایسے معاہدے کیے گئے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ کوئی اس طرح کے معاہدے کیسے کرسکتا ہے۔
پاکستان میں انتظامی افسران کے سیاسی گروپس بنے ہوئے ہیں
ایک سوال کے جواب کے انتخابات سے قبل پوسٹنگز یا ٹرانسفرز ہو رہی ہیں جن پر سیاسی جماعتیں معترض ہیں۔ اس پر نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ ہماری انتظامیہ اس قدر آلودہ ہوچکی ہے کہ افسران میں ن لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے گروپس بنے ہوئے ہیں۔
لیکن اب ہم نے تو انہی افسران سے کام لینا ہے جو میسر ہیں۔ ہم تو انہی کو پوسٹ کریں گے جو آپ کو میسر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ ہم سیاسی جماعتوں کے تمام اعتراضات دور کر سکتے ہیں۔
الیکشن کے لیے محکمہ موسمیات نہیں محکمہ زراعت سے مشاورت کریں گے
ایک سوال کے جواب کے انتخابات سے کچھ حاصل نہیں ہوگا اور وہی سیاسی جماعتیں برسراقتدار آ جائیں گی، وزیراعظم نے کہا کہ الیکشن سے کچھ حاصل ہو گا کہ نہیں ہوگا یہ ہمارا کام نہیں۔ ہمارا کام الیکشن کروانا ہے اور اس کے لیے ہم نے محکمہ موسمیات سے مشاورت تو نہیں کرنی الیکشن کمیشن آف پاکستان سے ہی مشاورت کرنی ہے۔ انہوں نے ازراہِ تفنن کہا کہ محکمہ زراعت سے مشاورت تو کرنی ہے کیونکہ خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہم نے یوکرائن کو ہتھیار نہیں بیچے
وزیر اعظم نے کہا کہ انہوں نے چیک کروایا ہے کہ جن 2 امریکی کمپنیوں کو پاکستان نے ہتھیار بیچے اینڈ یوزر سرٹیفیکٹ میں مڈل ایسٹ کا ذکر تھا۔ لیکن ہم نے تو بنیادی طور پر ان 2 کمپنیوں ہی کو ہتھیار بیچے تھے۔
ٹیکس بڑھانا آئی ایم ایف کی نہیں، میری اپنی خواہش تھی
وزیراعظم کاکڑ نے کہا کہ آئی ایم ایف نے ہمیں ٹیکس بڑھانے کے لیے نہیں کہا بلکہ میں خود چاہتا تھا کہ ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے، وکلا، صحافی اور ریٹیلرز سے ٹیکس لیا جائے اور اس سلسلے میں آئی ایم ایف نے ہم سے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ کرنسی کی غیر قانونی تجارت کا موضوع انہوں نے خود آئی ایم ایف کے ساتھ چھیڑا۔ہم نے انتظامی اقدامات کیے ہیں اور منی اسمگلنگ روکنے سے ہمارے سرکلر ڈییبٹ پر 1.6 ٹریلین کا اثر پڑا ہے۔
ایک سوال کے جواب کہ آیا آئی ایم ایف ایک غیر منتخب حکومت کے ساتھ کام کرنے پر راضی ہے وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف دنیا کے کئی ممالک میں غیر منتخب حکومتوں کے ساتھ کام کرتا ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ وہ ہمارے ساتھ کام نہیں کریں گے۔
9 مئی کے واقعات تسلیم شدہ حقائق ہیں
وزیراعظم نے کہا کہ نو مئی کے واقعات کوئی قصہ کہانی نہیں بلکہ تسلیم شدہ ہیں اور ساری دنیا ان کو تسلیم کرتی ہے۔ پی ٹی آئی کے لوگوں کو سیاسی رائے کی وجہ سے قید نہیں کیا۔
انہوں نے معروف صحافی حفیظ اللہ نیازی کے بیٹے اور عمران خان کے بھانجے حسان نیازی کی گرفتاری کے بارے میں افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ پی ٹی آئی پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی لیکن غنڈہ گردی کے الزامات کا سامنا تو کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ گرفتاریوں میں قانونی طریقہ کار اختیار ہونا چاہیے اور جس طرح قانون میں ہے کہ 24 گھنٹے میں عدالت کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں انتظامی سربراہان سے بات کریں گے اور یہ صرف حسان نیازی کے لیے نہیں سب کے لیے ہونا چاہیے کہ جو بھی ملزم ہو اس کو اس کے پورے قانونی حقوق ملنے چاہییں۔
وزیراعظم نے کہا کہ کسی کا مقولہ ہے کہ طوائف الملوکی سے بچنے کے لیے تھوڑا ظلم بھی جائز ہے کیونکہ انارکی میں انسانوں کی تذلیل ہوتی ہے۔