چیئرپرسن بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) ڈاکٹر امجد ثاقب نے کہا ہے کہ اس پلیٹ فارم سے لگ بھگ ایک کروڑ لوگوں کی مدد کی جا رہی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ مستقبل میں یہ ایک کروڑ لینے والے دینے والے بن جائیں۔
’وی نیوز‘ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر امجد ثاقب نے کہاکہ بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) پاکستان کا سب سے بڑا فلاحی پروگرام ہے، جس کے ذریعے 93 لاکھ خاندانوں کو ماہانہ 4 سے 6 ہزار روپے کی مالی مدد فراہم کی جاتی ہے اور یہ اُن مستحقین کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔
لوگوں کو بھکاری بنانے کا بیانیہ بالکل غلط ہے
ڈاکٹر امجد ثاقب نے کہاکہ کچھ لوگوں کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ بی آئی ایس پی کے ذریعے لوگوں کو بھکاری بنایا جا رہا ہے۔ ’اگر اسی 4 سے 6 ہزار پر اُن مستحقین کا گزر بسر ہو رہا ہو تو پھر اس بیانیے کو درست مانا جا سکتا ہے مگر ایسا نہیں کیوں کہ وہ خاندان 20 سے 25 ہزار روپے ماہانہ کما رہے ہوتے ہیں اور پھر جب یہ رقم ان کو ملتی ہے تو اُن کی زندگی کی تلخیاں کم ہو جاتی ہیں‘۔
انہوں نے کہاکہ اگر میں اپنے کسی کمزور رشتے دار کو مہینے میں 5 ہزار روپے مدد کے طور پر دے دوں کہ اس سے اُس کا بچہ اسکول چلا جائے تو کیا یہ بھیک ہے؟۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نے کہاکہ اگر ایلیٹ کلاس کو بنگلہ اور گاڑی ملے تو ٹھیک ہے مگر ایک مستحق کو اگر 4 سے 6 ہزار روپے کی مدد ملتی ہے اسے بھیک سے جوڑا جاتا ہے جسے درست نہیں مانا جا سکتا۔
انہوں نے کہاکہ بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام اسلامی فلاحی ریاست کی جانب ایک قدم ہے۔
چیئرپرسن بی آئی ایس پی نے کہاکہ سویڈن، ناروے اور فن لینڈ میں جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو اس کو امداد کے طور پر کچھ رقم دے دی جاتی ہے اور ہمارے دوست مثالیں دیتے ہیں کہ دیکھیں فلاحی ریاستوں میں ایسا ہوتا ہے حالانکہ سویڈن کی کل آبادی 50 لاکھ ہے اور خاندان زیادہ سے زیادہ 10 لاکھ ہوں گے جبکہ پاکستان میں صرف بی آئی ایس پی کے پلیٹ فارم سے ایک کروڑ خاندانوں کی مدد کی جا رہی ہے تو ایلیٹ کہتی ہے کہ لوگوں کو بھکاری بنایا جا رہا ہے۔
بی آئی ایس پی میں خامیوں کو درست کیا جائے گا
ڈاکٹر امجد ثاقب نے کہا کہ ادارے میں خامیوں کو ضرور درست کیا جائے گا اور ہمارا سب سے بڑا مشن یہ ہے کہ بی آئی ایس پی میں شفافیت لائی جائے اور کمیشن ایجنٹوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے جو مستحقین کو رقم پوری ادا نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ ہم مستحقین کو رقم فراہم کرنے والے ایجنٹوں کو پہلے اخلاقی طور پر قائل کریں گے کہ معاشرے کے غریب اور لاچار افراد کی رقم سے کمیشن ہڑپ کرنا درست نہیں اور پھر اس کے بعد بھی جو نہیں سدھرے گا اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی، ہم کسی کو مستحقین کے پیسے غصب نہیں کرنے دیں گے۔
ہم چاہتے ہیں کہ بی آئی ایس پی مستحقین کے بینک اکاؤنٹس کھل جائیں
انہوں نے کہا کہ ہماری یہ بھی اسٹریٹجی ہے کہ مستحقین کے بینکوں میں اکاؤنٹس کھل جائیں، ایسا ہونے سے سارا مسئلہ ہی حل ہو جائے گا۔
ان کا کہنا تھا ’میں چاہتا ہوں کہ اگر کوئی پوچھے کہ پاکستان کا سب سے اچھا ادارہ کون سا ہے تو بی آئی ایس پی کا نام آئے‘۔
اخوت کے پلیٹ فارم سے 200 ارب روپے کے قرضے دے چکے ہیں، امجد ثاقب
اپنے فلاحی ادارے اخوت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر امجد ثاقب نے کہا کہ اب تک ہم ضرورت مند افراد کو 200 ارب روپے کے قرضے دے چکے ہیں جن میں قرضوں کی تعداد 60 لاکھ اور مستفید ہونے والے افراد کی تعداد 40 لاکھ ہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نے کہاکہ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر ہم چند دوستوں نے فیصلہ کیا تھا کہ ضرورت مند افراد کو بلا سود قرضے دیے جائیں گے۔ تقریباً ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے سے ہم نے آغاز کیا اور پھر ہم آگے بڑھتے گئے۔
انہوں نے کہاکہ میرا ایک ویژن تھا کہ ضرورت مند افراد کو بلا سود قرض دیا جائے چونکہ میں سود کو درست نہیں سمجھتا اور یہ شریعت کے بھی خلاف ہے۔
ہم سود کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں
انہوں نے بتایا کہ جب ایک شخص قرض واپس کر کے دوسری بار پھر لینا چاہتا ہے تو اس کے قرض کی رقم بھی بڑھا دی جاتی ہے، ایک آدمی کئی کئی بار قرضہ لیتا ہے اور رقم بڑھتی رہتی ہے۔
ایک سوال کہ کیا قرض لینے والے لوگ آپ کو رقم واپس کرتے دیتے ہیں؟ کے جواب میں ڈاکٹر امجد ثاقب نے کہاکہ دھوکا تو اس کے ساتھ ہوتا ہے جو دھوکا کرتا ہے۔ ہم چونکہ مواخات کے علمبردار ہیں اور سود کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے اسٹاف کے لوگ انتہائی دیانتدار ہیں اور بہت محنت سے کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے سارے سسٹم میں شفافیت ہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نے کہاکہ ہم خود لوگوں کو گھر جا کر کہتے ہیں کہ آپ کاروبار کا آغاز کریں ہم آپ کو بلا سود قرضہ دیں گے، ہم نے اس قوم کو یقین لوٹایا ہے۔
ڈاکٹر یونس اور دیگر لوگوں سے سیکھا مگر کاپی نہیں کیا
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر یونس اور دیگر لوگوں کے جو پراجیکٹس چل رہے ہیں اس میں قرض بلا سود نہیں ہے، ہم نے ان سے سیکھا ضرور ہے مگر کاپی نہیں کیا۔ اخوت کا اپنا ایک طریقہ کار ہے اور ہمارا قرض بلا سود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر میری کاوش سے ایک شخص امیر ہو جائے تو سمجھ لیں کہ میں امیر ہو گیا ہوں۔
انہوں نے سنگاپور کو بدلنے والے وزیراعظم کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ کسی نے اس سے سوال پوچھا کہ ایک چھوٹے سے گاؤں کو آپ نے دنیا کا خوبصورت ملک کیسے بنا دیا تو اس نے کہا تھا کہ جب میں وزیراعظم بنا تو میرے پاس دو راستے تھے کہ یا میں خود امیر ہو جاؤں یا اپنے ملک کو امیر کر دوں۔
’میں اگر آج پراپرٹی ٹائیکون ہوتا تو لوگوں کی نظر میں میری یہ عزت کبھی نہ ہوتی جو ہے‘۔
میڈیا کی طرف لوگوں کے کہنے پر آئے
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ہم پہلے نیکی کے کام کا پرچار نہیں کرتے تھے تو لوگوں نے ہمیں کہا کہ نیکی کا کام کھل کر کرنا چاہیے تاکہ بدی کو روکا جا سکے تو اس وجہ سے ہم میڈیا کی طرف بھی آئے۔
جو کچھ دیکھتا ہوں کوشش ہوتی ہے لکھ لوں
ڈاکٹر امجد ثاقب نے کہاکہ میں جو کچھ دیکھتا ہوں تو کوشش ہوتی ہے کہ اس کو کسی طریقے سے لکھ لوں کیوں کہ زندہ وہی چیز رہتی ہے جو لکھ دی جائے، زندگی کے تجربات کو سینے میں لے کر نہیں جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ لکھنا مجھے سکون دیتا ہے، میں خوش قسمت ترین آدمی ہوں جو ٹاٹ کے اسکول سے چلا اور امریکن یونیورسٹی تک چلا گیا۔