سائفر کیس میں گواہان نے کیا بیانات قلمبند کروائے؟

بدھ 18 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر مقدمے کے ٹرائل کا باضابطہ طور پر آغاز ہوچکا ہے۔ سائفر کیس میں پراسیکیوشن کی جانب سے دائر کیے گئے چالان کی نقول تحریک انصاف کے لیگل ٹیم کو مہیا کر دی گئی ہیں، جس کے بعد آئندہ سماعت پر فرد جرم کی کارروائی شروع ہونے کا امکان ہے۔

28 گواہان کی فہرست

سائفر کیس میں پراسیکیوشن کی جانب سے 28 گواہان کی فہرست جمع کرائی گئی ہے جس میں وزیراعظم کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید کی گواہی اہم ہے۔

سائفر میں دھمکی کا ذکر نہیں تھا

امریکا میں سابق سفیر اسد مجید نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سائفر میں سازش اور دھمکی کا کہیں ذکر نہیں تھا، جبکہ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ سائفر کو سیاسی استعمال کرنے پر پاکستان اور امریکا کے نہ صرف تعلقات خراب ہوئے ہیں بلکہ مستقبل میں بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔

عمران خان اور اسد مجید۔ فائل فوٹو

پاکستان کے کمیونیکیشن سسٹم کو نقصان

تحریری بیان میں انہوں نے  یہ بھی کہا کہ ان کے خیال میں سائفر معاملے نے پاکستان کے کمیونیکیشن سسٹم کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ سازش اور دھمکی جیسے معنی یہاں کی سیاسی قیادت نے خود سے اخذ کیے۔

معمول کی خط کتابت تھی

بیان کے مطابق سابق سفیر نے واضح کیا کہ ’میں نے اسسٹنٹ سیکریٹری برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو کے ساتھ اپنی ملاقات کا احوال سائفر کے ذریعے معمول کے مطابق رپورٹ کیا، یہ ایک سادہ اور معمول کی خط کتابت تھی لیکن کوڈڈ تھی۔

طے شدہ ظہرانہ

سابق سفیر اسد مجید کے بقول یہ ایک پہلے سے طے شدہ ظہرانہ تھا جس کی میزبانی میں نے واشنگٹن میں پاکستان ہاؤس میں کی تھی۔

یہ ملاقات تقریباً 12 بج کر 30 منٹ پر طے تھی اور ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی۔ اس ظہرانے میں اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ ڈونلڈ لو کے ہمراہ ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ لیسلی ویگوری بھی موجود تھے۔

سائفر میں خارجہ سیکریٹری کو مخاطب کیا گیا تھا

اسد مجید کے بیان کے مطابق ’بات چیت میں دو طرفہ تعلقات کے تمام مسائل کا احاطہ کیا گیا۔ ایک سائفر ٹیلی گرام جس میں خارجہ سیکریٹری کو مخاطب کیا گیا تھا وہ میں نے بھجوا دیا پھر مجاز اتھارٹی نے اس کی کاپیاں دوسروں کے ساتھ شیئر کیں۔

سائفر میں ’خطرہ‘ یا ’سازش‘ کے الفاظ کا کوئی حوالہ نہیں تھا

ڈونلڈ لو

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ سائفر ہمارے خفیہ کوڈڈ کمیونیکیشن سسٹم کے ذریعے بھیجا گیا تھا جو پاکستان کے نمائندہ خارجہ مشنز اور اسلام آباد میں وزارت خارجہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کے لیے ہدایات کابینہ ڈویژن نے دے رکھی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے ملاقات کے دوران ہونے والی گفتگو کو درست طریقے سے اسلام آباد کو اس سائفر ٹیلی گرام میں رپورٹ کیا۔ سائفر بھیجنا بیرون ملک سفارتی مشنوں کا معمول ہے۔ خفیہ سائفر ٹیلی گرام میں ’خطرہ‘ یا ’سازش‘ کے الفاظ کا کوئی حوالہ نہیں تھا اور نہ ہی میں نے کسی سازش کے بارے میں کوئی تجویز پیش کی تھی۔ یہ اسلام آباد میں قیادت کی طرف سے اخذ کردہ ایک سیاسی نتیجہ تھا۔

امریکا کو ڈیمارش جاری کیا جائے

سابق سفیر کے بقول انہوں نے تجویز دی تھی کہ اسلام آباد اور واشنگٹن دونوں میں امریکا کو ڈیمارش جاری کیا جائے۔ 31 مارچ 2022 کو اسلام آباد میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد ڈیمارش کر دیا گیا۔

قومی سلامتی کمیٹی نے بارہا یہ نتیجہ بھی اخذ کیا کہ یہ معاملہ صرف ڈیمارش کا ہے اور کوئی سازش نہیں پائی گئی۔

حکومت کی تبدیلی کے لیے کوئی بیرونی سازش نہیں ہوئی

اسد مجید نے بتایا کہ قومی سلامتی کمیٹی کا ایک اور اجلاس 22 اپریل 2022 کو ہوا جس میں انہوں نے شرکت کی تھی۔ اس اجلاس میں میں سائفر ٹیلی گرام کے مندرجات کا جائزہ لیا گیا اور انٹیلی جینس ایجنسیوں کے سربراہان سے رائے لی گئی۔

ایک بار پھر اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے لیے کوئی بیرونی سازش نہیں ہوئی۔ وزارت خارجہ نے 25 اپریل 2022 کو اپنی پریس بریفنگ میں اس موقف کا اعادہ کیا

عمران خان اور اعظم خان، فائل فوٹو

سائفر واقعے نے ہمارے سفارت کاروں کی ساکھ کو نقصان پہنچایا

انہوں نے کہا کہ ’میں نے سات مارچ 2022 سے آج تک کی مدت کے دوران سابق وزیراعظم یا ان کے مشیر سے براہِ راست یا بالواسطہ طور پر ملاقات یا بات چیت نہیں کی۔

سابق سفیر اسد مجید کے بیان کے مطابق فارن سروس میں ایک پروفیشنل کے طور پر میں سمجھتا ہوں کہ سائفر واقعے نے ہمارے مواصلاتی نظام کی سالمیت، ہمارے سفارت کاروں کی ساکھ اور سفارت کاری کو نقصان پہنچایا ہے جس کے ہمارے مستقبل کے سفارتی رپورٹنگ کلچر پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے فوج کے خلاف ٹارگٹڈ پلان کیا

سابق وزیر اعظم کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان نے بھی تحریری بیان میں بتایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے فوج کے خلاف ٹارگٹڈ پلان کیا، انہوں نے سیاسی مقاصد اور تحریک عدم اعتماد میں بچنے کے لیے پلان بنایا۔

اعظم خان۔ فائل فوٹو

چیئرمین پی ٹی آئی نے 9 مارچ کو سائفر پر رائے دی

اعظم خان کے بیان کے مطابق  سائفر سے متعلق قومی اسمبلی کے اسپیکر نے رولنگ انہی کی ہدایت پر دی تھی، سائفر جس چینل سے آتا ہے اسی چینل سے واپس بھیجا جاتا ہے۔

8 مارچ کو سائفر سے متعلق فارن سیکریٹری کا ٹیلی فون آیا۔ ٹیلیفون پر اس کی کاپی وزیر اعظم آفس کو بھجوانے سے متعلق بتایا گیا۔ فارن سیکریٹری نے کہا کہ 9 مارچ کو اس کی کاپی وزیر اعظم کے حوالے کریں۔

سابق وزیر اعظم نے اداروں کے خلاف مؤثر بیانیہ بنانے کو کہا

مرکزی گواہ کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی نے 9 مارچ کو سائفر پر رائے دی، وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی اس معاملے پر چیئرمین پی ٹی آئی کو پہلے ہی آگاہ کر چکے تھے۔

تحریری جواب میں اعظم خان نے بتایا کہ سابق وزیر اعظم نے اس معاملے پر اداروں کے خلاف مؤثر بیانیہ بنانے کو کہا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp