مصر کے شہر قاہرہ میں گزشتہ روز منعقد ہونے والی امن کانفرنس کے دوران شرکاء نے مطالبہ کیا کہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے انسانی بنیادوں پر غزہ راہداری کھولی جائے۔ غزہ کی پٹی میں شہریوں تک امداد پہنچانے کے لیے ایک انسانی راہداری قائم کرنے کی ضرورت ہے جس سے جنگ بندی ہو سکتی ہے۔
مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ایک درجن سے زائد ممالک کے رہنما اور اعلٰی حکام کانفرنس کے لیے جمع ہوئے جس میں مشرق وسطٰی کے وسیع تر تنازع کے بڑھتے ہوئے خدشات کے درمیان اسرائیل اور حماس کی جنگ کو کم کرنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
قاہرہ امن سربراہ اجلاس کے نام سے منعقدہ کانفرنس میں اردن، فرانس، جرمنی، روس، چین، برطانیہ، امریکا، قطر اور جنوبی افریقہ کے نمائندے اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے حکام نے اجلاس میں شرکت کی۔
میزبان مصر کی جانب سے امن کی راہ بحال کرنے کے لیے روڈ میپ کے معاہدے پر آنے کی دعوت دی گئی ہے۔ فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے وزرائے خارجہ نے قاہرہ امن کانفرنس میں شرکت کی۔
غزہ کی صورت حال پر بات چیت کے لیے منعقد کانفرنس میں 7 اکتوبر کو حماس کے اچانک اسرائیل پر حملے اور اسرائیل کی جانب سے غزہ پر بمباری سے پیدا ہونے والی صورت حال پر گفتگو کی گئی۔
مزید پڑھیں
اپنے افتتاحی کلمات میں مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے رہنماؤں کو غزہ کی پٹی میں انسانی بحران کے خاتمے اور اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کی راہ بحال کرنے کے لئے روڈ میپ کے معاہدے پر آنے کی دعوت دی۔
انہوں نے کہا کہ روڈ میپ کے مقاصد میں غزہ کو امداد کی فراہمی اور جنگ بندی پر اتفاق شامل ہے، جس کے بعد 2 ریاستی حل کی طرف لے جانے والے مذاکرات شامل ہیں۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے اجلاس میں شرکت کی اور انسانی ہمدردی کی راہداریاں کھولنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن اسرائیل کی جانب سے کسی عہدیدار کی عدم موجودگی نے ان توقعات پر پانی پھیر دیا ہے کہ سربراہی اجلاس کیا حاصل کر سکتا ہے۔
اردن کے شاہ عبداللہ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تمام شہریوں کی زندگیاں اہمیت کی حامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں مسلسل بمباری کی مہم ہر سطح پر ظالمانہ اور ناقابل برداشت ہے۔ یہ محصور اور بے بس لوگوں کی اجتماعی سزا ہے۔ یہ بین الاقوامی انسانی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ ایک جنگی جرم ہے۔
اس دوران خطے میں کشیدگی کے خاتمے کے لیے قاہرہ میں منعقدہ امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے غزہ میں انسانی امداد کی متواتر فراہمی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ غزہ کے لیے امدادی اقدامات میں اضافے کے لیے اقوام متحدہ تمام فریقین کے ساتھ متواتر کام کر رہا ہے۔ اس تنازع پر قابو پانے کے لیے مختصر مدتی اہداف سبھی پر واضح ہونے چاہئیں جن میں غزہ میں امداد کی فوری، بلاروک و ٹوک اور متواتر فراہمی، حماس کی جانب سے اسرائیلی یرغمالیوں کی فوری اور غیرمشروط رہائی اور انسانی بنیادوں پر جنگ بندی شامل ہیں۔
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اس دورے میں انہوں نے انسانی تباہی کو رونما ہوتے دیکھا ہے۔ خوراک اور دیگر ضروری امدادی سامان سے لدے سیکڑوں ٹرک مصر کی سرحدی حدود میں کھڑے تھے جبکہ غزہ میں محصور 20 لاکھ لوگوں کو پانی، خوراک، ایندھن، بجلی اور ادویات میسر نہیں ہیں۔
فرانسیسی وزیر خارجہ کیتھرین کولونا نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں شہریوں تک امداد پہنچانے کے لیے ایک انسانی راہداری قائم کرنے کی ضرورت ہے جس سے جنگ بندی ممکن ہو سکتی ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ جیمز کلیورلی نے اعلان کیا کہ انہوں نے اسرائیلی حکومت سے بات کی ہے کہ غزہ میں شہریوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے اسے بین الاقوامی قانون کے مطابق کیا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فوج کو تحمل سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ انتہائی مشکل حالات کے باوجود میں نے اسرائیلی فوج سے نظم و ضبط، پیشہ ورانہ مہارت اور ضبط نفس کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا۔
جرمن وزیر خارجہ انالینا بیربوک نے کانفرنس کے دوران تقریر میں اعلان کیا کہ حماس کے خلاف جنگ فلسطینیوں کے خلاف شمار نہیں کی جانی چاہیے۔ غزہ کی انسانی صورت حال پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا جانا چاہیے ورنہ یہ صورت حال حماس کے حق میں جائے گی۔
انالینا بیربوک نے مزید کہا کہ حماس اور اس کے سپانسرز کا مقصد مزید علاقائی کشیدگی کا باعث بننا ہے۔ اس سے گریز کیا جانا چاہیے۔
غزہ میں فلسطینی مائیں اور باپ اپنے بچوں کے لیے پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ دہشت گردی کی زبان نہیں بول رہے۔ حماس کے خلاف جنگ کو بے گناہ مردوں، عورتوں اور بچوں کی انسانی صورت حال کے لیے ممکنہ حد تک تشویش کے ساتھ چلانا چاہیے۔