اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی درخواست پر فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا ہے ۔
سائفر کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کی۔ شاہ محمود قریشی کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر اور علی بخاری ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی مقدمہ میں ایک سے زیادہ ملزم ہیں اور کسی ایک ملزم کی حد تک جیل ٹرائل کا آرڈر ہوا تو وہ کافی نہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے عدالت کو بتایا کہ 13 اکتوبر کو جیل ٹرائل کا ایک نیا نوٹی فکیشن بھی جاری ہو گیا ہے جو پراسیکیوٹر نے دائر کرنا تھا مگر وہ ابھی ٹرائل کے لیے گئے ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس نے علی بخاری سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے 13 اکتوبر والا نوٹی فکیشن دیکھا ہے؟ اس پر علی بخاری نے بتایا کہ شاہ محمود کے خلاف 3 سے 13 تاریخ تک کی تمام عدالتی کارروائی غیر قانونی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فرض کریں کہ نیا نوٹی فکیشن نہیں ہوا جس میں چیئرمین پی ٹی آئی اور دیگر لکھا گیا، کیا اس صورت میں 2 ملزمان کے 2 الگ الگ ٹرائل ہوں گے؟
مزید پڑھیں
شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری ایڈووکیٹ نے مؤقفم اختیار کیا کہ جیل ٹرائل سیکیورٹی کے لیے ہوتا ہے مگر اس میں اہل خانہ کو ٹرائل سننے کی اجازت ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ یہ پریکٹس ہے یا کوئی قانون بھی موجود ہے اس سے متعلق؟ ہم جیل ٹرائل اور ان کیمرا پروسیڈنگ کو آپس میں مکس کر رہے ہیں۔
علی بخاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ابھی ان کیمرا پروسیڈنگ کا کوئی آرڈر نہیں ہوا، جیل ٹرائل میں پریذائیڈنگ افسر کے بہت اختیارات ہوتے ہیں۔ پریذائیڈنگ افسر ریکویسٹ نہیں، آرڈر کر سکتا ہے جیل سپرنٹنڈنٹ کو۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ نے جیل ٹرائل میں کوئی سماعت اٹینڈ کی ہے؟ علی بخاری نے بتایا کہ ایک چھوٹے سے کمرے میں ٹرائل کے لیے عدالت لگائی جاتی ہے، جیل میں سماعت کے وقت جگہ بھی بہت کم ہوتی۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا اڈیالہ جیل میں جگہ اتنی کم پڑ گئی ہے؟
شاہ محمود قریشی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ جیل میں سماعت کے کمرے میں بمشکل دو، چار لوگ ہی بیٹھ سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی ملزم کو اپنے وکیل سے مشاورت کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا، ملزم کی فرد جرم سے قبل وکیل سے مشاورت کی اجازت ہونی چاہیے۔
علی بخاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ٹرائل کے لیے ایک پنجرہ نما کمرہ ہے جس میں زیادہ لوگوں کے بیٹھنے کی بھی جگہ نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ٹرائل چلنا ہے اور اگر جیل میں چلنا ہے تو بہتر جگہ ہونی چاہیے، یہ ایک دن کی تو بات نہیں، ٹرائل چلنا ہے، شہادتیں ریکارڈ ہونا ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے کہا کہ 2 ملزمان کا ٹرائل ہے تو وہ ایک ہی جگہ ہونا ہے، یہ عدالت جیل ٹرائل کو درست قرار دے چکی ہے۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔