نواز شریف کی 5 سال بعد احتساب عدالت میں واپسی، اس موقع پر کیا کچھ ہوا؟

منگل 24 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سابق وزیراعظم و قائد پاکستان مسلم لیگ ن نواز شریف کو 5 سال قبل 24 دسمبر 2018 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید کی سزا، 10 سال تک عوامی عہدے پر فائز ہونے کی پابندی، تمام جائیداد ضبط کرنے اور 3 ارب روپے سے زیادہ کے جرمانے کی سزا سنائی تھی، اس کے فوری بعد نواز شریف کو پولیس اہلکاروں نے کمرہ عدالت سے ہی حراست میں لے لیا تھا۔

آج 5 سال بعد نواز شریف نے توشہ خانہ کیس میں ضمانت کے لیے ایک مرتبہ پھر سے احتساب عدالت کا رخ کیا، اس دوران نواز شریف خوشگوار موڈ میں نظر آئے اور وکلا، کارکنان، صحافیوں اور لیگی رہنماؤں سے مصافحہ کیا، نواز شریف کمرہ عدالت میں مسکراتے رہے، انہوں نے نیلا شلوار قمیض، نیلی واسکٹ اور ہلکے نیلے رنگ کا مفلر زیب تن کر رکھا تھا۔

نوازشریف کو عدم پیشی پر اشتہاری قرار دیا گیا تھا

احتساب عدالت نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور سابق صدر آصف علی زرداری کو 29 مئی 2020 کو طلب کیا تھا تاہم مسلسل عدم حاضری پر احتساب عدالت نے نواز شریف کو اشتہاری قرار دے دیا تھا اور ان کے دائمی وارنٹ جاری کر رکھے تھے، نواز شریف نے 4 سال لندن میں قیام کے بعد وطن واپسی سے قبل احتساب عدالت سے وارنٹ معطل کرنے کی درخواست کی جسے منظور کر لیا گیا۔

آج صبح 11 بجے نواز شریف اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیشی کے لیے مری سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے، مری سے روانگی کے وقت نواز شریف کی گاڑی پر مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے گل پاشی کی جبکہ اسلام اباد کی احتساب عدالت کے باہر خواتین اور کارکنان صبح سویرے سے اپنے قائد کا انتظار کرتے رہے۔

نواز شریف کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے پیش ہونے کے لیے ایک سے ڈیڑھ بجے تک کا وقت دیا تاہم 12 بجے کے بعد سے مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنماؤں نے عدالت کا رخ کیا۔

نوازشریف کی عدالت پیشی کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات

نواز شریف کی پیشی سے قبل احتساب عدالت کے اطراف میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے، تمام غیر متعلقہ افراد کا داخلہ ممنوع کیا گیا تھا، تاہم یہ سیکیورٹی اتنی سخت نہیں تھی جو کہ 5 سال قبل نواز شریف کی پیشی کے موقع پر ہوا کرتی تھی، 5 سال قبل مسلم لیگ ن کے کسی بھی کارکن کو جوڈیشل کمپلیکس کے قریب بھی نہیں آنے دیا جاتا تھا جبکہ کمرہ عدالت کے اندر سینیئر رہنماؤں کے علاوہ کوئی پارٹی رہنما موجود نہیں ہوتا تھا۔

نواز شریف کی آمد سے قبل کمرہ عدالت وکلا کی بڑی تعداد اور لیگی رہنماؤں کے باعث بھر گیا، نواز شریف کی گاڑی جوڈیشل کمپلیکس کے باہر پہنچی تو لیگی کارکنوں نے بھرپور نعرے بازی کی اور ’وزیراعظم نواز شریف، وزیراعظم نواز شریف‘ کے نعرے لگائے اور بھنگڑے ڈالے، اس موقع پر نواز شریف کی گاڑیوں پر بھرپور گل پاشی کی گئی، نواز شریف کی گاڑی سمیت صرف 2 گاڑیوں کو جوڈیشل کمپلیکس کے احاطے میں داخلے کی اجازت ملی، نواز شریف جب گاڑی سے اترے تو میڈیا نمائندوں نے نواز شریف سے گفتگو کی کوشش کی تاہم نواز شریف نے کوئی جواب نہ دیا، 5 سال قبل نواز شریف صحافیوں کو خود مخاطب کر کے گفتگو کیا کرتے تھے۔

سابق وزیراعظم شہباز شریف نواز شریف کے کمرہ عدالت پہنچنے سے قبل ہی وہاں پر پہنچ گئے اور وہاں موجود لیگی رہنماؤں، صحافیوں اور وکلا سے مصافحہ کیا، اس کے فوری بعد نواز شریف کمرہ عدالت پہنچے، اس موقع پر اسحاق ڈار، احسن اقبال، حنیف عباسی، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، چوہری تنویر، مریم اورنگزیب، مائزہ حمید، طاہرہ اورنگزیب اور دیگر لیگی رہنما بھی نواز شریف کے ہمراہ موجود تھے۔

نوازشریف خوشگوار موڈ میں کمرہ عدالت پہنچے

نواز شریف نے کمرہ عدالت میں داخل ہوتے ہی پہلے لیگی رہنماؤں کو سلام کیا اور بعد ازاں خوشگوار موڈ میں صحافیوں سے خیریت دریافت کی تاہم صحافیوں کے جانب سے پوچھے گئے تمام سوالوں میں سے کسی بھی سوال کا جواب نہ دیا۔

نواز شریف کی کمرہ عدالت میں آمد سے قبل مسلم ن کے رہنما بیرسٹر دانیال چوہدری نے کہا کہ میں 5 سال بعد اس عدالت میں آیا ہوں اور میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ کچھ بھی نہیں بدلا، صرف فاضل جج صاحب کی کرسی بدلی ہے، جس پر صحافی کی جانب سے بیرسٹر دانیال کو بتایا گیا کہ کرسی بھی نہیں بدلی محض کرسی پر لگا ہوا کپڑا تبدیل کیا گیا ہے باقی سب کا سب ویسے ہی چل رہا ہے جیسے پہلے چلا کرتا تھا۔

نوازشریف 10 منٹ سے بھی کم احتساب عدالت میں رہے

کمرہ عدالت میں وکلا اور لیگی رہنماؤں کی بڑی تعداد کے باعث وکلا ایک دوسرے کو دھکے دیتے رہے، عدالتی کارروائی مکمل ہونے اور نواز شریف کی حاضری لگانے میں کافی دشواری ہوئی۔ کمرہ عدالت میں نواز شریف، ان کے دائیں جانب شہباز شریف اور ان کے ساتھ اسحاق ڈار کرسی پر براجمان رہے۔ نواز شریف کی حاضری لگانے کے بعد فاضل جج نے سیکیورٹی اہلکاروں کو نواز شریف کو کمرہ عدالت سے لے جانے کا اشارہ کر دیا، اور فاضل جج محمد بشیر بھی چیمبر میں چلے گئے، اس کے ساتھ ہی کمرہ عدالت میں ویرانہ چھا گیا، اور یوں نواز شریف کمرہ عدالت میں 10 منٹ سے بھی کم وقت گزارنے کے بعد وہاں سے روانہ ہو گئے۔

نواز شریف کی واپسی کے بعد توشہ خانہ کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سابق وزیراعظم کے وکیل قاضی مصباح کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ویسے بہت مزہ آتا ہے جب کمرہ عدالت میں کافی لوگ جمع ہو جاتے ہیں، جس پر قاضی مصباح نے کہا کہ لوگ ان کے پیچھے اکٹھے نہیں ہوتے جن پر اعتماد نہ ہو، اس موقع پر فاضل جج محمد بشیر نے کہا کہ بس بس، اب آپ سیاسی گفتگو کر رہے ہیں، اس دوران کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp