11 ملکوں میں پاکستان کے سفیر اور 6 ملکوں میں بطور کیریئر ڈپلومیٹ خدمات انجام دینے والے جنوبی ایشیا امور کے ماہر نجم الثاقب نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے لیے یہ اہم ہے کہ افغان لوگ پاکستان کو کس طرح سے دیکھتے ہیں۔ ان کے بھائی، بھتیجے، بھانجے جو سالہا سال سے یہاں پاکستان میں مقیم ہیں ان کی وطن واپسی پر افغان ناراضی کا اظہار کیوں کرتے ہیں جبکہ وہ اس ملک پاکستان کو پسند بھی نہیں کرتے۔
’افغانوں کو تو پاکستان میں مقیم اپنے بھائیوں کو واپسی پر خوش آمدید کہنا چاہیے۔ افغان طالبان کی حکومت نے پاکستان کے اس اقدام پر ناراضی کا اظہار کیا ہے جو میرے لیے باعث حیرت ہے، انہیں تو اپنے افغان بھائیوں کو اپنے ملک میں خوش آمدید کہنا چاہیے تھا‘۔
افغان کھلاڑی کے ٹوئٹ کو سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں
افغان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی زدران نے پاکستان سے میچ جیتنے کے بعد کہا کہ وہ اپنی جیت پاکستان سے نکالے جانے والے افغانوں کے نام کرتے ہیں، کیا وجہ ہے کہ افغان پاکستان سے اتنی زیادہ نفرت کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں نجم الثاقب نے کہاکہ مجھے تو اس میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی کیونکہ جب کوئی آدمی جیتتا ہے تو وہ اس طرح کی باتیں کرتا ہے، زدران ویسے بھی افغان کرکٹ ٹیم کے کپتان تو نہیں ہیں اس لیے ان کے اس بیان کو زیادہ سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں۔
مزید پڑھیں
یہ 1996 والے طالبان نہیں
سفارتکار نجم الثاقب نے کہا کہ یہ وہ والے طالبان نہیں جو 1996 میں تھے، یہ وہ طالبان ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم تو ڈیم بنا رہے ہیں، ہم نے چین، روس اور ترکیہ کے ساتھ اربوں ڈالر کے معاہدے کر لیے ہیں، ہمارے ملک کا زرمبادلہ بڑھ رہا ہے۔ تو پھر پاکستان میں مقیم غیر قانونی افغان باشندوں کی واپسی کو اتنا بڑا مسئلہ کیوں بنا رہے ہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے میرے گھر کے حالات اچھے نہیں تھے تو میں نے اپنے بھائی سے کہا کہ وہ کہیں اور رہ لے لیکن اب جب میرے حالات اچھے ہو چکے ہیں تو مجھے تو اسے واپسی پر خوش آمدید کہنا چاہیے۔
کیا افغان ترقی کے بارے میں طالبان کے دعوے مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں؟
اس سوال کہ کیا افغان ترقی کے بارے میں طالبان کے دعوے مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں؟ کے جواب میں نجم الثاقب نے کہاکہ میں تو ان دعوؤں کو ایسے ہی لوں گا جیسے مجھے بتایا جا رہا ہے۔ افغان طالبان نے آتے ہی بجٹ پیش کر دیا کہ ہم اس ملک کو ایسے چلائیں گے۔ پھر کہا کہ ہمارے 9 ارب ڈالر پڑے ہیں، جب پتا چلا کہ وہ نہیں مل رہے تو اب یہ ڈیم اور سڑکیں بنانے سمیت تجارت کی باتیں کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ میں تو اس کو ایسے ہی لوں گا جیسے مجھے بتایا جا رہا ہے۔ افغانستان کے حالات اچھے ہونے سے مجھے تو خوشی ہے۔
افغانستان کی خوشحالی کے دعوؤں کے برعکس پاکستان میں مقیم افغان وہاں کیوں نہیں چاہتے؟۔ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغان حالات کی درست تصویر پیش کرنا افغان حکومت کی ذمے داری ہے نا کہ پاکستان، یو این ایچ سی آر یا آئی او ایم کی۔
انہوں نے کہاکہ بین الاقوامی کنونشنز اور پاکستان کے فارنر ایکٹ کی رو سے جب کوئی شخص قانونی یا غیر قانونی طور پر کسی ملک میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کے کچھ حقوق ہو جاتے ہیں لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں پاکستان افغان غیر قانونی مہاجرین کو وطن واپس بھجوا سکتا ہے تو میں یہ کہوں گا کہ بھجوا سکتا ہے۔
افغانوں کی وطن واپسی دیر آید درست آید
نجم الثاقب نے کہا کہ پاکستان میں بہت سے ملکوں سے آئے ہوئے پناہ گزین موجود ہیں، جن میں برما، نائیجیریا، موزمبیق، بنگلہ دیش اور کئی اور ممالک کے باشندے شامل ہیں لیکن افغان مہاجرین چونکہ تعداد میں زیادہ ہیں اس لیے جب بھی مہاجرین کی واپسی کی بات کی جاتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ افغان مہاجرین کی واپسی کی بات کی جا رہی ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ حکومت پاکستان کو یہ اچانک کیوں خیال آیا لیکن اس میں دیر آید درست آید والی بات ہے، دنیا کے 250 سے زیادہ ممالک میں آپ ویزہ لے کر جاتے ہیں اور وہاں مقررہ مدت سے زیادہ قیام نہیں کر سکتے۔
افغان مہاجرین میں دہشت گردوں کے سہولت کار ہیں
انہوں نے کہاکہ پاکستان ان افغان مہاجرین کو وطن واپس بھجوا سکتا ہے کیونکہ یہ وہ کام نہیں کر رہے جو انہیں کرنا چاہیے ان میں دہشت گردوں کے سہولت کار ہیں۔ ایسی صورت میں یہ پہچاننا مشکل ہے کہ کون دہشت گرد ہے اور کون نہیں۔ تو آسان حل یہ ہے کہ آپ کہیں کہ بھائی وقت ہو گیا ہے اب آپ واپس جائیں۔
افغانوں کی وطن واپسی سے معاشی حالات اور امن عامہ ٹھیک ہو گا
نجم الثاقب نے کہاکہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی سے نا صرف ہماری معیشت بلکہ امن و امان کی صورتحال بھی بہتر ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ افغان طالبان تحریک طالبان پاکستان پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ دوحہ مکالمے میں طالبان نے تسلیم کیا کہ وہ افغان سرزمین سے دہشت گردی نہیں ہونے دیں گے۔
پاکستانی حکومتیں مہاجرین کے بارے میں کوئی قانون بنانے میں ناکام رہیں
نجم الثاقب نے کہا کہ پاکستان کی حکومتیں مہاجرین کے بارے میں کوئی قانون بنانے میں مسلسل ناکام رہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک خاتون راحیل عزیزی نے ہائیکورٹ میں مقدمہ کیا جس میں عدالت العالیہ نے کہا کہ چونکہ آپ کے ملک میں قانون نہیں اس لیے آپ زبردستی ملک بدر نہیں کر سکتے۔ اس تناظر میں جب کوئی آپ کے ملک میں آ جاتا ہے تو وہ رضاکارانہ طور پر واپس جائے گا تو جائے گا زبردستی آپ نہیں بھجوا سکتے۔
قانون بنانے میں ناکامی کی وجہ سے بین الاقوامی قانون لاگو ہو گیا
نجم الثاقب نے کہا کہ چونکہ پاکستان میں مہاجرین سے متعلق کوئی قانون نہیں تو ایسی صورتحال میں بین الاقوامی قانون اس کی جگہ لے لیتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کی طرف یو این ایچ سی آر اور آئی او ایم جیسے بین الاقوامی ادارے، امریکا اور یورپ اشارہ کر رہے ہیں اور ہمیں افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے سے منع کیا جا رہا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ یہ مہاجرین ہیں۔
افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے ڈیڈلائن میں توسیع ہونی چاہیے
نجم الثاقب نے کہاکہ یہ کسی صحیفے میں نہیں لکھا کہ یکم نومبر ہی کو غیرقانونی تارکین وطن کی واپسی ہونی چاہیے، بالکل اس میں توسیع ہونی چاہیے۔
ایک سوال کہ آیا ان افغان مہاجرین کی واپسی سے دہشت گردی کے واقعات میں کمی واقع ہو سکتی ہے؟ کے جواب میں نجم الثاقب نے کہاکہ پہلے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ سارے کے سارے واپس چلے جائیں۔ زیادہ تر وہ لوگ واپس جائیں گے جو ابھی طالبان حکومت بننے کے بعد یہاں آئے۔
مجھے نہیں لگتا کہ طالبان حکومت کو تسلیم کیا جائے گا؟
طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے پوچھے گے سوال کے جواب میں نجم الثاقب نے کہا کہ جب اگست 2021 میں طالبان نے افغانستان میں حکومت بنائی تو امریکا اور اس کے یورپین اتحادیوں کی جانب سے ہمیں ایک فہرست مہیا کی گئی کہ آپ نے دیکھنا ہے کہ وہاں انسانی حقوق کی صورتحال کیا ہے، عورتوں کو تعلیم کا حق دیا جا رہا ہے کہ نہیں اور پھر ہم نے دیکھا کہ دنیا کے تقریباً سارے ممالک نے ان کو تسلیم نہیں کیا اور پھر ہمیں لگا کہ شاید طالبان کو اب اس کی ضرورت ہی نہیں رہی۔
انہوں نے کہاکہ مجھے نہیں لگتا کہ دنیا انہیں تسلیم کرے گی لیکن دنیا کے ساتھ ان کے بطور ڈی فیکٹو حکومت تعلقات استوار کیے جا رہے ہیں۔ دنیا طالبان کو اب بھی ایک دہشت گرد گروہ کے طور پر دیکھتی ہے اور طالبان کو بھی یہ سمجھ ہے کہ مسلم ممالک سمیت کوئی ان کو تسلیم نہیں کرے گا۔