سپریم جوڈیشل کونسل آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ججز کے احتساب کے لیے قائم ایک ادارہ ہے، مذکورہ آرٹیکل واضح کرتا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن جج کے خلاف ریفرنس کی صورت میں سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں اس جج کے بجائے اس سے اگلا سینئر ترین جج سپریم جوڈیشل کونسل اجلاس میں بیٹھے گا۔
یہی اصول ہائی کورٹس کے دو سینئر ترین چیف جسٹس صاحبان پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ اگر ان کے خلاف بطور رکن سپریم جوڈیشل کونسل کوئی ریفرنس دائر ہو گا تو ان کی جگہ اگلا سینئر ترین جج سپریم جوڈیشل کونسل اجلاس میں شرکت کرے گا۔ اسی طرح سپریم جوڈیشل کونسل کا کوئی رکن اگر بیماری یا کسی اور وجہ سے اجلاس میں شرکت نہیں کر سکتا تو اس کی جگہ اگلا سینئر ترین جج اجلاس میں شرکت کرے گا۔
سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس کل ہوگا
اکتوبر 2018 میں سپریم جوڈیشل کونسل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ان کے عہدے سے برطرف کیا اور پھر 2019 میں موجودہ چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ان کی اہلیہ کے اثاثوں کو بنیاد بنا کر تحریک انصاف کی حکومت نے ایک صدارتی ریفرنس دائر کیا، جسے سپریم کورٹ کے فل بینچ نے مسترد کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو ان کے عہدے پر بحال رکھا تھا۔
اس طرح کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں اور اب چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کل سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس طلب کرلیا ہے جس میں ججز کیخلاف زیر التواء شکایات پر غور کیا جائے گا۔ موجودہ سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس امیر حسین بھٹی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔
اس سے قبل چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی صحافیوں سے ملاقات میں یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو اعلٰی عدلیہ کے ججز کے خلاف شکایات کے ازالے کے لیے فعال کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں
سپریم جوڈیشل کونسل کیا ہے؟
سپریم جوڈیشل کونسل اعلٰی عدلیہ کے ججز، بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ، پر مشتمل ایک خود احتسابی کا ادارہ ہے جو ججوں کے مس کنڈکٹ پر کارروائی کرتا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین جبکہ سپریم کورٹ کے 2 سینئر ترین جج اور اور 2 ہائی کورٹ کے سینئر ترین چیف جسٹس سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن ہوتے ہیں۔
سپریم جوڈیشل کونسل کیسے کام کرتی ہے؟
سپریم جوڈیشل کونسل آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کام کرتا ہے، اس آرٹیکل کے تحت سپریم کورٹ، ہائی کورٹ ججز کے خلاف مس کنڈکٹ کی شکایات پر ابتدائی طور پر اظہار وجوہ کے نوٹس کا اجراء کیا جاتا ہے اور اس کے بعد کارروائی میں جج کو الزامات پر صفائی کا موقع دیا جاتا ہے۔ کسی جج کے خلاف مس کنڈکٹ کی شکایت یا تو صدارتی ریفرنس کے ذریعے دائر کی جاتی ہے جیسا کہ جسٹس قاضی فائزعیسٰی کے مقدمے میں کیا گیا یا پھر سپریم جوڈیشل کونسل ازخود کارروائی کا اختیار بھی رکھتا ہے اور ججز کے خلاف عام لوگوں کی شکایات بھی سنتا ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں کن ججز کے خلاف ریفرنسز زیر التوا ہیں؟
سپریم جوڈیشل کونسل سے بہت سارے ججز کے خلاف ریفرنسز دائر کئے جاتے ہیں، کئی وکلاء اور عام شہری یہ ریفرنسز دائر کرتے رہتے ہیں لیکن زیادہ تر ریفرنسز غیر موثر ہو کر خارج ہو جاتے ہیں۔ زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ جج کی مدت ملازمت کے دوران ریفرنس پر فیصلہ نہیں ہوتا اور جج صاحب ریٹائر ہو جاتے ہیں جس کے بعد ریفرنس غیر موثر ہو جاتا ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں زیادہ تر صدر مملکت کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنسز یا کسی بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر ریفرنس پر سماعت ہوتی ہے۔ اس وقت جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سردار طارق اور سابق ججز میں، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور کچھ دیگر ججز کے خلاف ریفرنسز زیر التواء ہیں۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی گزشتہ کارروائیاں
مئی 2019 میں پاکستان تحریک انصاف نے موجودہ چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں بیرون ملک اہلیہ کی جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے الزامات کے تحت ایک ریفرنس دائر کیا تھا۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے یہ ریفرنس وزیراعظم عمران خان کی ایڈوائس پر سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا تھا، جس نے ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم جاری کیا تھا لیکن بعد میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے 19 جون 2020 کو صدارتی ریفرنس خارج کر دیا۔
بعد میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ایک کیوریٹو ریویو یعنی نظرثانی کی اپیل دائر کی تھی۔ پی ٹی آئی حکومت کی رخصتی اور پی ڈی ایم حکومت آنے کے بعد وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے یہ درخواست واپس لینے کی استدعا کی تھی۔ بعدازاں 21 جولائی 2023کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مذکورہ کیوریٹو ریویو خارج کر دیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے ساتھ ہی سندھ ہائی کورٹ کے ایک جج کے کے آغا کے خلاف بھی سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک ریفرنس دائر کیا گیا جو بعد ازاں خارج کر دیا گیا تھا۔
اکتوبر2018 میں سپریم جوڈیشل کونسل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ان کی جولائی 2018 میں راولپنڈی بار ایسوسی ایشن میں کی گئی ایک تقریر کی بنیاد پر ان کے عہدے سے برطرف کر دیا تھا۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی تقریر کی بنیاد پر انہیں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا اور پھر کارروائی کر کے صدر مملک عارف علوی کو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کی سفارش کی تھی جو منظور کر لی گئی۔
فروری 2017 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج، جسٹس مظہر اقبال سدھو نے اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی سے قبل اپنے عہدے سے استعفٰی دے دیا تھا۔ جسٹس مظہر اقبال سدھو پر کرپشن کے الزامات تھے۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے انہیں بھی اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا تھا اور ان کے خلاف کارروائی کا آغاز ابھی کیا جانا تھا لیکن انہوں نے کونسل میں پیشی سے دو روز قبل اپنے عہدے سے استعفٰی دے دیا تھا۔
اسی طرح لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس فرخ عرفان خان کا نام پانامہ پیپرز اسکینڈل میں سامنے آیا اور ان پر بیرون ملک جائیدادیں رکھنے کا الزام لگا تو سپریم جوڈیشل نے ان کے خلاف بھی کارروائی کا آغاز کیا، لیکن انہوں نے بھی اپریل 2019 میں اپنے عہدے سے استعفٰی دے دیا تھا۔