پاک افغان سرحدی شہر چمن میں پانچویں روز بھی احتجاج جاری ہے. احتجاج کا سلسلہ پاک افغان سرحد پر ویزا پالیسی کے خلاف شروع ہوا۔ سرحد پر پاسپورٹ کی پالیسی کو تبدیل کرنے کے لیے حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے سینکڑوں لوگ سرحدی شہر کی سڑکوں پر نکل آئے۔
مظاہرے میں سیاسی جماعتوں کے رہنما، تاجر برادری، یومیہ اُجرت پر کام کرنے والے مزدوروں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ وہ سرحد پر پاسپورٹ پالیسی متعارف کرانے پر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے خلاف بھی نعرے لگا رہے تھے۔
مزید پڑھیں
سیاسی رہنماؤں کی حکومت پر تنقید
5 روز سے جاری احتجاجی جلسے میں سیاسی رہنماؤں اور تاجر رہنماؤں نے اپنی تقاریر میں افغانستان کے لیے ویزا اور پاسپورٹ پالیسی متعارف کرانے پر حکومت پر کڑی تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پالیسی نے علاقے میں ہزاروں افراد کو بے روزگار کر دیا ہے اور یہ سرحد پر ہموار کاروباری سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹ ہوگی۔
سرحد پر سیکیورٹی سخت کر دی گئی
چمن میں جاری یہ احتجاج وفاقی حکومت کی جانب سے سرحد پر قانونی نقل و حرکت کو یقینی بنانے کے لیے ویزا اور پاسپورٹ کو ضروری قرار دینے کے بعد سامنے آیا ہے۔ جمعرات کو ہونے والے احتجاجی مظاہرے کے موقع پر سرحد پر سیکیورٹی سخت کر دی گئی تھی۔
14 ہزار تارکین وطن رضاکارانہ طور پر واپس جاچکے ہیں
دوسری جانب نگران صوبائی وزیر داخلہ زبیر جمالی نے کوئٹہ میں افغان مہاجرین کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ بلوچستان سے ابتک 14 ہزار تارکین وطن رضاکارانہ طور پر واپس جاچکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یکم نومبر 2023 سے غیر قانونی تارکین وطن کو ہر صورت نکالا جائیگا۔ کسی کیساتھ غیر انسانی سلوک نہیں کیا جائیگا، صرف افغانستان کے لوگ ہمارا ٹارگٹ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ تارکین وطن کے حوالے سے جیو فینسنگ کی جائے گی۔ اختیارات کا ناجائز استعمال کسی صورت قبول نہیں۔
واضح رہے کہ حکومت نے نقل و حرکت کے لیے پاسپورٹ کو ضروری قرار دیا ہے۔ اور یکم نومبر سے بغیر ویزا اور پاسپورٹ کے کسی بھی غیر ملکی کی پاکستان میں داخلے پر پابندی ہوگی۔