ججوں کے احتساب کے لیے قائم ادارے سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی کے ذریعے سپریم کورٹ کے کسی جج کی برطرفی کی مثال نہیں ملتی جبکہ ہائی کورٹ ججز میں سے بھی صرف اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو سپریم جوڈیشل کونسل کاروائی کے ذریعے ان کے عہدے سے ہٹایا گیا۔ ان کے علاوہ، جسٹس اقبال حمید الرحمٰن، جسٹس مظہر اقبال سدھو اور جسٹس فرخ عرفان نے سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی شروع ہونے یا ریفرنس دائر ہونے پر استعفٰے دے دیے تھے۔
آج سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف پاکستان بار کونسل کی درخواست پر اظہار وجوہ کے نوٹسز جاری کر دیے ہیں جس نے آڈیولیکس اور جسٹس نقوی کے اثاثہ جات کے بارے تحقیقات کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر رکھا ہے۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کون ہیں؟
جسٹس نقوی 16 مارچ 2020 کو لاہور ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج بنے۔ ان کا تعلق گوجرانوالہ شہر سے ہے۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے ایل ایل بی کیا۔ وہ 1988 سے وکالت کے شعبے سے منسلک رہے ہیں اور 2001 میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے۔
انہوں نے اپنے وکالت کے کیریئر میں ایک ہزار سے زائد مقدمات میں وکالت کی ہے اور ان کے کئی مقدمات کے فیصلے رپورٹ بھی ہوئے۔ اس سے قبل 19 فروری 2010 کو وہ لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے اور تقریباً 10 سال ہائی کورٹ جج کے عہدے پر فائز رہے۔
جسٹس نقوی کھیلوں سے خصوصی شغف رکھتے ہیں اور سکول سے لے کر یونیورسٹی تک کرکٹ ٹیم کا حصہ رہے۔
جسٹس نقوی کے مشہور مقدمات
12 جنوری 2020 کو جسٹس نقوی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک بینچ نے جنرل مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کا فیصلہ کرنے کے لیے بنائی گئی خصوصی عدالت کو غیر آئینی قرار دیا تھا، جب خصوصی عدالت جنرل مشرف کو سزائے موت سنا چکی تھی۔
مزید پڑھیں
10 اپریل 2018 کو جسٹس نقوی لاہور ہائی کورٹ کے اس بینچ کے حصہ تھے جس نے میاں نواز شریف اور مریم نواز کی عدلیہ مخالف مبینہ تقاریر پر پیمرا کو نوٹس جاری کئے تھے۔ اس سماعت کے دوران میاں نواز شریف کے وکیل اے کے ڈوگر اور جسٹس نقوی کے درمیان، جسٹس عاطر محمود کی بینچ میں شمولیت کے معاملے پر تلخ کلامی ہوئی تھی کیونکہ اے کے ڈوگر کا کہنا تھا کہ جسٹس عاطر محمود اس سے قبل تحریک انصاف لائرز فورم کے جنرل سیکرٹری رہ چکے ہیں۔ اور پھر 16 اپریل کو اس بینچ نے پیمرا کو نواز شریف، مریم نواز کی عدلیہ مخالف تقاریر نشر نہ کرنے کے احکامات جاری کئے تھے۔
فواد چوہدری اور شاہد خاقان عباسی کا کیس
29جون 2018 کو جسٹس نقوی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے بینچ نے پاکستان مسلم لیگ نواز کے سابقہ ایم این اے شیخ وسیم اختر کو قصور میں عدلیہ مخالف ریلی نکالنے پر ایک ماہ قید کی سزا سنائی تھی۔
جون 2018 میں جسٹس عباد الرحمٰن لودھی پر مشتعمل الیکشن ٹربیونل نے عام انتخابات سے ایک ماہ قبل پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات فواد چوہدری کو آئین کے آرٹیکل 62(1)F کے تحت نااہل قرار دے دیا تھا۔
اس فیصلے کے خلاف اپیل جسٹس نقوی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سنی جس نے مذکورہ فیصلے کو معطل کرتے ہوئے فواد چوہدری کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی۔
اسی روز جسٹس نقوی کے بینچ نے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماء شاہد خاقان عباسی کی الیکشن ٹربیونل کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے انہیں بھی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی۔
شاہد خاقان کے وارنٹ گرفتاری
10 ستمبر 2018 کو جسٹس نقوی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک بینچ نے جسٹس نقوی کی سربراہی میں سابق وزیراعظم شاھد خاقان عباسی کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے۔
وکلا کا ہنگامہ
اگست 2017 میں جسٹس نقوی اس بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان بینچ کے صدر شیر زمان قریشی کے عدالت کے سامنے پیش نہ ہونے پر ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے جس کے بعد وکلاء نے لاہور ہائی کورٹ پر حملہ کر کے توڑ پھوڑ کی تھی۔
21 ستمبر 2017 کو جسٹس نقوی نے پنجاب حکومت کو ماڈل ٹاون واقعے پر جسٹس علی باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے کے احکامات جاری کئے تھے۔
سماعت سے انکار
2نومبر 2017 کو جسٹس نقوی نے جماعت الدعوٰہ کے سربراہ حافظ سعید کی نظربندی کے خلاف ایک درخواست کی سماعت کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ پنجاب حکومت کے خلاف صاف پانی مقدمہ کی سماعت کر رہے تھے کہ وہ مقدمہ ان سے کسی اور جج کو منتقل کر دیا گیا جبکہ قانون کے مطابق جس مقدمے کی سماعت جاری ہو اس کو منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے حافظ سعید کی نظربندی کے خلاف درخواست کی سماعت کرنے سے انکار کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ایسے ماحول میں کام نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس نقوی کو نوٹس
جسٹس نقوی کو سپریم جوڈیشل کونسل اس سے قبل بھی نوٹس جاری کر چکی ہے جس کو انہوں نے نومبر 2016 میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلینج کیا تھا جس پر اس وقت کے چیف جسٹس نے ان کی درخواست کی سماعت کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیا تھا لیکن بعد میں اس معاملے پر مزید کوئی کارروائی نہ ہوئی اور پھر جسٹس نقوی سپریم کورٹ کے جج بن گئے۔
سنیارٹی لسٹ میں ہیراپھیری
دسمبر 2016 میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس فرخ عرفان خان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی کہ سنیارٹی لسٹ میں وہ جسٹس قاسم خان، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس مظہر اقبال سدھو سے اوپر تھے اور سنیارٹی لسٹ میں ردوبدل کر کے ان کو جونیئر ظاہر کیا گیا۔