جسٹس منصور علی شاہ نے 15 ستمبر کو نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے سپریم کورٹ کی 3 رکنی بینچ سے اختلاف کرتے ہوئے اپنا تفصیلی اختلافی نوٹ جاری کیا ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ کرپشن کے مقدمات میں اعلٰی عدالتوں کے ججوں اور فوجی افسروں کا نیب کے ذریعے احتساب ہونا چاہیے۔
’کرپشن کے مقدمے میں جج اور فوجی افسر محکمہ جاتی کاروائی کے بعد اپنے عہدے سے برطرف ہو جائیں گے اور اس کے بعد کرپشن کے ذریعے اکٹھی کی گئی دولت کا مزہ لیں گے۔ اس کے مقابلے پہ ایک عوامی عہدہ رکھنے والے کو کرپشن الزامات کے تحت نہ صرف سول بلکہ فوجداری کاروائی کا بھی سامنا کرنا پڑے گا، جس میں عہدے سے برطرفی کے ساتھ ساتھ جیل اور غیر قانونی طریقے سے اکٹھی کی گئی دولت بھی واپس کرنا پڑے گی۔‘
اپنے 27 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ اسفند یار کیس کی یہ مندجہ بالا عدالتی تشریح ججوں اور فوجی افسران کو احتساب کے خوف کے بغیر، غیر قانونی دولت اپنے پاس رکھنے کی اجازت دیتی ہے جس سے ججوں اور فوجی افسران کے قانون سے بالاتر اور ناقابلِ احتساب ہونے کا تاثر ابھرتا ہے۔ ’ہمیں اس طرح کے تصورات کی سختی سے مذمت کرنی چاہیے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ، سپریم کورٹ کے اس بینچ کا حصہ تھے جس نے سابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا لیکن جسٹس منصور علی شاہ نے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور اب جبکہ اس فیصلے کے خلاف اپیلیں بھی دائر ہو چکی ہیں انہوں نے اپنے تفصیلی فیصلے کی وجوہات جاری کی ہیں۔
مزید پڑھیں
اختلافی نوٹ کا آغاز انہوں نے امریکی سپریم کورٹ کے سابق ایسوسی ایٹ جج بینجمین نیتھن کارڈوزو کا قول نقل کیا ہے ’اکثریت کی آواز، اکثریت کا فیصلہ فتح کا نقیب اور اس پر بہت داد و تحسین ہوتی ہے جبکہ اختلاف کرنے والا مستقبل کے خدشات کے بارے میں سوچتا ہے‘۔ اینٹینیو سکیلیا کہتا ہے کہ اختلاف رائے عدالت کا حسن ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے کہ عدالتوں کو لوگوں کی تعریف و تنقید سے ماورا ہو کر مستقبل کے منظرنامے کو مدنظر رکھتے ہوئے سوچنا چاہیے، عدالتوں کو سیاسی جماعتوں کی طرح عوامی تائید کی ضرورت نہیں ہوتی اس لئے انہیں فیصلے آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا چاہییں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست کو ’میرٹ لیس‘ یعنی بے بنیاد قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ازخود مقدمات درخواست گزار کی موجودگی ضروری ہے یا نہیں اور ان درخواستوں کے قابلِ سماعت ہونے کے بارے میں فیصلہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ عمران خان کے وکیل کسی بھی طریقے سے یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ نیب ترامیم سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے کہ کثرت رائے جمہوریت کی بنیاد ہے اور پارلیمان میں فیصلے کثرت رائے کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اگر ایک اقلیت، اکثریت کے فیصلے کو چیلنج کرتی ہے اور عدالت اس قانون سازی کو بدل دیتی ہے تو اس سے کثرت رائے کے جمہوری اصول کی نفی ہوتی ہے۔
’پارلیمنٹ کے سپریم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عدالتیں پارلیمنٹ کے اندرونی طریقہ کار اور فیصلوں میں مداخلت نہیں کر سکتیں۔‘