رپورٹ:۔ محمد گلفراز
ایک وقت تھا جب ہاتھ سے لکھی تحریر یعنی فن خطاطی کو ایک نمایاں مقام حاصل تھا۔ اُس وقت لوگ اپنی دکان یا کسی بھی کاروبار کی تشہیر کے لیے پینٹر سے دیواروں پر لکھائی کروایا کرتے تھے۔ اپنے دفتر یا دکان کا نام لکھوانا ہو یا بینرز پر تحریر لکھوانی ہو تو شہر کے سب سے نامور پینٹر کا انتخاب کیا جاتا تھا۔
پھر وقت نے کروٹ بدلی اور دیکھتے ہی دیکھتے فن خطاطی کی جگہ جدید ٹیکنالوجی کی حامل بڑی بڑی مشینوں نے لے لی۔ جن سے بڑے بڑے سائن بورڈ اور تشہیری مواد انتہائی خوبصورت ڈیزائنوں کے ساتھ تیار ہونے لگا۔
جو لوگ اپنے کاروبار کی تشہیر بڑے شوق کے ساتھ پینٹر سے کروایا کرتے تھے، وہی لوگ اس نئی ٹیکنالوجی کی ایجاد پینا فلیکس کے دلدادہ ہو گئے۔ اس طرح جہاں جدید ٹیکنالوجی نے لوگوں کو روزگار مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ تشہیری مواد میں جدت لائی وہیں فن خطاطی سے وابستہ افراد کے روزگار کو بھی شدید متاثر کیا۔
فن خطاطی میں اپنے نام کا لوہا منوانے والا برکت آرٹ بھی متاثر
ایسے ہی ضلع اٹک کی تحصیل حسن ابدال سے تعلق رکھنے والے پینٹر برکت آرٹ کا شاگرد اصغر علی بھی فن خطاطی کے شعبے سے گذشتہ 20 سالوں سے منسلک ہے، اصغر علی نے 13 سال کی عمر میں حسن ابدال کے معروف پینٹر برکت آرٹ سے فن خطاطی کا کام سیکھنے کا آغاز کیا۔
مزید پڑھیں
برکت آرٹ نے اپنے معیاری کام اور خوبصورت لکھائی کے باعث نا صرف حسن ابدال بلکہ ضلع اٹک اور راولپنڈی میں بھی اپنے نام کا لوہا منوایا۔ پورے ضلع اٹک اور تحصیل حسن ابدال میں ہر شخص اپنی دکان، اپنے دفتر کانام برکت آرٹ سے ہی لکھوانا چاہتا تھا لیکن جدید ٹیکنالوجی پینا فلیکس متعارف ہونے کے بعد کاروبار کی تشہیر کا انداز ہی بدل گیا۔ بڑی بڑی مشینوں سے تیار ہونے والے نت نئے ڈیزائن کے پینا فلیکس، سائن بورڈز نے ہر کسی کو اپنی طرف راغب کر لیا اور اسی مشینری کے شوروغل میں برکٹ آرٹ اور ان جیسے نجانے کتنے ہی فن خطاطی کے ماہر لوگوں کے نام گم ہو گئے۔
پینافلیکس ٹیکنالوجی کے بعد ہمارا کام نہ ہونے کے برابر رہ گیا، شاگرد برکت آرٹ اصغر علی
برکت آرٹ کے شاگرد اصغر علی نے وی نیوز کو بتایا کہ میرے استاد برکت آرٹ کا نام پورے ضلع میں بولتا تھا، اس دور میں ہماری اس دکان پر 10 سے 12 کاریگر کام کیا کرتے تھے، ہمارے پاس اتنا کام تھا کہ دن کو ہی نہیں بلکہ اکثر اوقات ہمیں راتوں کو بھی جاگ کر کام کرنا پڑتا تھا لیکن جب سے پینا فلیکس ٹیکنالوجی آئی ہے ہمارے پاس کام نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حسن ابدال میں پہلے 5 سے 6 پینٹرز کی دکانیں تھیں، لیکن کام نہ ہونے کی وجہ سے اب پورے حسن ابدال میں صرف ایک ہماری دکان رہ گئی ہے، باقی اکثر پینٹرز نے یا تو اس شعبے سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے، یا گھر میں بیٹھ کر کام کر رہے ہیں، دوسری جانب مہنگائی بھی بہت ہو گئی ہے، ہمیں رنگوں میں پیٹرول استعمال کرنا پڑتا ہے جو کہ اس وقت بہت مہنگا ہے۔
اصغر علی کا مزید کہنا تھا کہ اب تو کام نہ ہونے کی وجہ سے دکان کا کرایہ تک نکالنا مشکل ہو گیا ہے۔ پہلے ہم کہیں بھی کام کرنے کے لیے جاتے تھے تو لوگ ہمارے کام سے خوش ہو کر ہماری اجرت سے بھی زیادہ پیسے دے دیتے تھے لیکن اب گاہک ہماری اجرت کے مطابق معاوضہ ادا نہیں کرتا، اگر ہم زیادہ پیسوں کی ڈیمانڈ کریں تو وہ پینا فلیکس والے کے پاس چلے جاتے ہیں، حالانکہ پینا فلیکس کی نسبت ہمارا کام دیر پا ہے، ہم نے اپنے ہاتھوں سے دیواروں پر لکھی 10 سال پرانی تحریروں کو آج بھی دیکھا ہے جو ویسی کی ویسی ہی ہیں لیکن اس کے باوجود اب لوگ فن خطاطی کی قدر نہیں کرتے۔
اصغر علی کا ماننا ہے کہ پینا فلیکس کی جدید ٹیکنالوجی نے بلاشبہ کاروبار کی تشہیر میں جدت لائی ہے لیکن جہاں اس جدید ٹیکنالوجی نے لوگوں کو روزگار مہیا کیا ہے وہیں برکت آرٹ اور ان جیسے بہت سے لوگوں کے روزگار کو شدید متاثر بھی کیا ہے۔