سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور تحریک انصاف کے سینئررہنما اسد قیصرکی گرفتاری ایک ایسے وقت پہ ہوئی ہے جب وہ مشکل حالات سے دوچار پارٹی کو نکالنے اور آئندہ انتخابات میں پارٹی کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے سیاسی جدوجہد میں مصروف تھے، پاکستان تحریک انصاف نے ان کی گرفتاری کو پارٹی کے لیے بڑا دھچکا قرار دیا ہے۔
9 مئی کے پرتشدد واقعات کے بعد گرفتاری سے بچنے کے لیے اکثر رہنما تاحال روپوش ہیں تاہم اسد قیصر ان چند رہنماؤں میں سے ہیں جو تمام تر مشکل حالات میں بھی روپوش نہیں ہوئے بلکہ مقدمات کا سامنا کیا اور پارٹی کو کڑی صورتحال سے نکالنے کے لیے پس پردہ مذاکرات بھی کرتے رہے۔
پارٹی رہنماؤں کے مطابق اسد قیصر اس وقت بھی مذاکرات کے لیے گئے جس کے بعد پرویز خٹک نے اسلام آباد کے ایک سیف ہاؤس میں عمران خان اور پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کیا تو اسد قیصر وہاں موجود تھے مگر انہوں نے خان کا ساتھ چھوڑنے سے صاف انکار کردیا تھا۔
اسد قیصر الیکشن کے لیے راہ ہموار کرنے میں مصروف تھے
باخبر ذرائع کے مطابق اسد قیصر پارٹی کو 9 مئی کے پس منظر میں عتاب سے نکالنے کے لیے ہمہ وقت مصروف اور سیاسی جماعتوں اور مقتدر قوتوں سے بھی رابطے میں تھے، اسد قیصر کی کوشش تھی کہ پارٹی امیدواروں کو الیکشن لڑنے کی اجازت ملے انہیں مبینہ طور پر تنگ کرنے کا سلسلہ بھی ختم ہو۔
پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان معظم بٹ نے وی نیوز کو بتایا کہ سخت وقت میں اسد قیصر ڈٹ گئے تھے اور پارٹی کو لے کر آگے چل رہے تھے، وہ سینئر رہنما ہیں۔ پارٹی سمیت سیاسی بیٹھکوں میں ان کی پہچان ہے اور وہ اہم کردار ادا کر رہے تھے۔
اسد قیصر کی گرفتاری پارٹی کے لیے دھچکا ؟
معظم بٹ نے اسد قیصر کی مبینہ کرپشن کیس میں گرفتاری کو پارٹی کے لیے بڑا دھچکا قرار دیتے ہوئے ان کی گرفتاری کو سیاسی انتقام کا شاخسانہ قرار دیا، جو ان کے مطابق عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد سے جاری ہے، پارٹی رہنماؤں کیخلاف مقدمات انہیں کمزور کرنے کی مذموم کوشش ہے۔
معظم بٹ کے مطابق ان کی جماعت ان حالات میں بھی قانون کی بالادستی اور شفاف انتخابات کا تقاضا کر رہی ہے اور اسد قیصر بھی اسی ضمن میں سیاسی طور پر سرگرم تھے۔ ’اسد قیصر کی گرفتاری سے پارٹی کو نقصان ہو گا کیونکہ وہ پارٹی کے سیاسی مفادات کے لیے متحرک تھے لیکن اس سے ان کا حوصلہ پست نہیں ہو گا۔‘
معظم بٹ کا کہنا تھا کہ الیکشن کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم کے لیے حکمت عملی مرتب کرلی گئی ہے جس کے تحت حتمی فیصلے کور کمیٹی کرے گی۔ ’ہمارے قائد سمیت دیگر مرکزی رہنما جیل میں ہیں، ہم ان ہتھکنڈوں سے ڈرنے والے نہیں بلکہ قانون کے دائرے میں رہ کر مقابلہ کریں گے۔‘
مزید پڑھیں
‘اسد قیصر پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں’
اسد قیصر کی گرفتاری سے تحریک انصاف کے رہنما اور کارکنان پریشان ضرور ہیں تاہم وہ پر امید ہیں کہ اسد قیصر اپنے قائد عمران خان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ پارٹی کے سینئر رہنما اور اسد قیصر کے قریبی ساتھی کا دعوٰی ہے کہ وہ عمران خان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ ’جس کی سیاست خان کے ساتھ جڑی ہو، جس کا اپنا کوئی ووٹ بینک نہ ہو، وہ خان کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔‘
پارٹی رہنما کے مطابق اسد قیصر کے پارٹی چھوڑنے سے پی ٹی آئی سے کہیں بڑھ کر خود ان کی سیاست پر منفی اثر پڑے گا جس کا انہیں بھی احساس ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بعض پارٹی رہنما اسد قیصر کی گرفتاری میں پرویز خٹک کے کردار پر بھی شک کا اظہار کررہے ہیں، لیکن اس کوئی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے بتایا کہ ابھی تک پارٹی چھوڑنے والوں کی وجہ سے کوئی نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہی ہوا ہے اور کارکنان بھی زیادہ جوش و خروش کے ساتھ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
گرفتاری اور پریس کانفرنس سے ہمدردیاں بڑھ رہی ہیں
سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی محمد فہیم سمجھتے ہیں کہ گرفتاریوں اور پریس کانفرنسوں سے پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ وی نیوز سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ پولیس، اینٹی کرپشن یا اور کوئی اور ادارہ اسد قیصر کو گرفتار کرتے ہیں یا تیمور جھگڑا کے گھر پر چھاپا مار رہے ہیں، اس سے پارٹی کے ساتھ عوامی ہمدردی میں اضافہ ہورہا ہے۔
محمد فہیم کے مطابق ابھی تک نہیں لگ رہا ہے کہ پارٹی چھوڑنے والوں کی وجہ سے کچھ اثر پڑا ہو، کارکنان ان کے ساتھ نہیں بلکہ پارٹی کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ ’اسد قیصر کے جانے سے بھی کوئی خاطر خواہ اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ ان کی عدالت پیشی کی ویڈیو دیکھ کر نہیں لگتا کہ وہ کسٹڈی میں ہیں یا ریمارنڈ پر، وہ بالکل تازہ دم ہوتے ہیں۔ ’ان کی گرفتاری کسی اور مقصد کے لیے بھی ہو سکتی ہے۔‘
گرفتاریوں اور پریس کانفرنسز کی وجہ سے پی ٹی آئی کو جلسوں کی ضرورت
صحافی محمد فہیم کا ماننا ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد سے ہی سیاسی جماعتیں جلسوں میں مصروف ہیں جبکہ تحریک انصاف کو انہی گرفتاریوں اور پریس کانفرنسوں کی وجہ سے جلسوں کی ضرورت نہیں پڑ رہی۔ ’آئے روز گرفتاریوں کی وجہ سے پی ٹی آئی ہمدردیاں سمیٹ رہی ہے اور لوگ ان کے مؤقف کی تائید کر رہے ہیں۔‘