نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ گزشتہ 2 سال سے افغان سرزمین سے دہشتگرد کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بدقسمتی سے افغان عبوری حکومت کےبعد دہشتگردی میں 60 فیصد اضافہ ہوا۔ پاکستان میں ہونیوالے حملوں کی معلومات افغانستان کو دیں لیکن پاکستان مخالف دہشتگرد گروہوں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 2 سال میں سرحد پار دہشتگردی سے 2 ہزار سے زائد پاکستانی شہید ہوئے، پاکستان میں بدامنی پھیلانے میں بڑا کردار غیرقانونی تارکین وطن کا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان گہرا رشتہ ہے۔ امید تھی کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف سخت کارروائیاں عمل میں لائی جائیں گی لیکن عبوری افغان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں دہشتگردی بڑھ گئی ہے۔
مزید پڑھیں
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ افغانستا ن میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد دیرپاامن کی توقع تھی۔ پاکستان نے دہشت گرد کارروائیوں سے متعلق معلومات افغان حکومت کو دیں۔ افغانستان کی جانب سے مثبت ردعمل نہ آنے پر اپنے معاملات خود ٹھیک کرنے کا فیصلہ کیا۔
نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ افغان حکومت دہشت گردی میں ملوث عناصر ہمارے حوالے کرے۔ امید کرتے ہیں افغان حکومت اپنی سرزمین پر دہشتگردوں کا قلع قمع کرے گی، پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کی 4 دہائیوں تک میزبانی کی، الزام تراشی سے پاکستان کے غیور عوام کو ٹھیس پہنچائی گئی۔ رضا کارانہ واپس جانے والوں کی تعداد 2 لاکھ 52 ہزار کے قریب ہے، ہماری کسی سے دشمنی نہیں، ہم اپنی پالیسی پر عملدرآمد کررہے ہیں۔
نگران وزیراعظم نے بتایا کہ حالیہ اقدامات غیر متوقع اور حیران کن نہیں، پاکستان نے افغانستان کو پاکستان یاکالعدم ٹی ٹی پی میں سے ایک کو چننے کا کہا، مطلوب سرکردہ دہشتگردوں کی فہرست افغانستان کے حوالے کی گئی لیکن افغان حکومت کے رویے کے بعد داخلی معاملات درست کرنےکا فیصلہ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پالیسی کے تحت پشتونوں کو ٹارگٹ کرنا قطعاً برداشت نہیں کیا جائے گا، افغان رہنماؤں کے حالیہ بیانات کے بعد دہشتگردی کے واقعات میں تیزی معنی خیز ہے۔ چند مواقع پر دہشتگردوں کی سہولت کے بھی واضح ثبوت سامنے آئے ہیں۔ افسوس کے افغان حکام کے بیانات سے معاملات باہمی افہام وتفہیم سے حل نہ ہوسکے۔
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ افغان رہنماؤں کے دھمکی آمیز بیانات افسوسناک ہیں۔ غیرقانونی تارکین وطن کو واپس بھیجنا پاکستان کا قانونی حق ہے۔ رضاکارانہ طورپر اڑھائی لاکھ افراد کا واپس جانا معمولی بات نہیں ہے۔ امریکا کے جانے سے پیدا ہونیوالے مسائل کا سامنا پاکستان کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشتگرد اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کا تعلق غیر ملکیوں سے ہے، کسی ملک کا سفیر وزیراعظم پاکستان سے مطالبہ نہیں کرسکتا، ہم نے محدود وسائل میں اقداما ت اٹھائے ہیں، ہم نے یہ فیصلہ اپنے مفاد میں کیا ہے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ جاری رکھیں گے۔
انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ جو فلسطینیوں کے ساتھ ہو رہا ہے صدیوں میں ایسا جرم کسی نے نہیں کیا، غزہ کے لیے جتنا کیا جائے اتنا کم ہے، غزہ میں ہزاروں بچے اور خواتین شہید ہوئیں، اسپتالوں پر بھی حملے ہورہے ہیں۔ تاریخ میں کبھی اس طرح کے مظالم کسی پر نہیں ہوئے ہیں۔
نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کا الیکشن سے کوئی تعلق نہیں۔ جن غیر ملکیوں کو ڈاکیو منٹس جاری ہوئے وہ ہمارے فریم ورک میں آگئے ہیں، جن غیر ملکیوں کے پاس ڈاکیومنٹس نہیں وہ واپس جارہے ہیں، دہشتگردی کے لیے حسن اتفاق کا لفط کبھی استعمال نہیں کروں گا، دہشتگردوں نے ہمارے ملک کیخلاف اعلان جنگ کررکھا ہے، ہمیں بھی دہشتگردوں کا جواب اسی طرح دینا چاہیے۔