افغانستان واپس جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ افغان حکومت اپنے دعوؤں کے برعکس واپس آنے والے افغانوں کو سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہے، اتنے لوگوں کو سنبھالنا بھی ایک کام ہے۔ خدشات کا شکار پریشان حال لوگ جن کا مستقبل غیریقینی کا شکار ہے، حکومت ایسی جو پہلے ہی مالی مشکلات کا شکار ہے، افغانستان کی آدھی آبادی کو مناسب خوراک دستیاب نہیں، روزگار کے مواقع نہیں، ایسے میں کوئی بھی حکومت ہو تو اس کے پاس کارکردگی دکھانے کو کتنی گنجائش ہوگی، افغان حکومت کے وزرا اب مایوسی کا شکار ہیں اور ان کا غصہ پاکستان پر نکل رہا ہے۔
افغان مہاجرین کو نکالنے کی کارروائی 3 ملکوں میں چل رہی ہے، پاکستان، ایران اور ترکی۔ ترکی کے حوالے سے ایک آدھ بیان کے علاوہ کوئی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی، ایران پر بالکل ویسی تنقید نہیں ہورہی جیسی پاکستان پر کی جارہی ہے۔
افغانستان کے ڈپٹی وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر ایک وفد کے ساتھ ایران پہنچے ہوئے تھے۔ وہاں انہوں نے ایران کے سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سربراہ علی اکبر احمدیان اور ایرانی وزیر داخلہ احمد واحدی سے بھی ملاقات کی، اس کے علاوہ ایرانی وزیر زراعت محمد علی نکبخت سے بھی ملاقات ہوئی۔
وزیر زراعت سے ملاقات سب سے اہم ہے۔ افغان وفد کا مطالبہ ہے کہ افغان مہاجرین کو نکالنے میں جلدی نہ کی جائے اور افغان حکومت پر دباؤ نہ ڈالا جائے۔ اس پر ایرانی حکام نے افغانستان سے دریائی پانی کے حوالے سے اپنا کوٹہ بڑھانے اور پانی کی تقسیم کے معاہدے پر عمل کرنے کو کہا ہے۔ ایران اور افغانستان کے درمیان دریائی پانی کی تقسیم اور حصے پر تنازعہ چل رہا ہے۔ ہلمند دریا کا پانی افغان طالبان اب روک کر اپنی زراعت کے لیے استعمال کرنا چاہ رہے ہیں۔ ایران کو اس پر اعتراضات ہیں۔ افغانستان پر پاکستان اور ایران نے ایک مشترکہ حکمت عملی بھی اختیار کر رکھی ہے۔ افغانستان کے اعلیٰ سطح کے وفد کی کوشش یہ بھی ہے کہ ایران پاکستان مشترکہ پالیسی کو ٹھیس پہنچائی جائے۔
افغان میڈیا میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پاکستان نے افغانستان کو قوش تپہ کینال پر کام بند کرنے کو کہا ہے۔ بظاہر یہ بات بے تکی لگتی ہے، اس کو پیش بھی ایسے کیا گیا ہے کہ جیسے پاکستان افغانستان کی ترقی کے حوالے سے ہونے والے پراجیکٹ کا مخالف ہے۔ پانی کے استعمال پر ایران کے علاوہ افغانستان کے وسط ایشیائی ہمسائے ازبکستان اور تاجکستان کو بھی سخت تشویش ہے۔ پاکستان اگر بند کمروں میں ایسا کہہ رہا ہے تو پھر اس کی وجہ توازن رکھنے اور افغانستان پر تمام ہمسائیوں کے ساتھ مشترکہ پالیسی رکھ کر چلنے کی خواہش ہوگی۔
افغان طالبان حکومت کے پاکستان کو زیادہ سخت الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنانے کی وجہ اور بھی ہے۔ افغان طالبان اگر پاکستان کو گنجائش دیتے دکھائی دیں تو ان کو پاکستانی ایجنٹ ہونے کے طعنوں کا سوشل میڈیا پر سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کا ان کے پاس کوئی علاج بھی نہیں ہوتا۔
افغان مہاجرین کی واپسی پر پاکستانی اقدام کو عالمی میڈیا اور مغربی ممالک کے سفارتخانے نہایت تفصیل سے مانیٹر کررہے ہیں۔ ایک شبہ یہ بھی کیا جارہا ہے کہ یہ واپسی پاکستان اور افغان طالبان کی کوئی ملی بھگت تو نہیں ہے؟ افغان طالبان کے کابل پر دوبارہ قبضے کے بعد سابق افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز کے اہلکار بڑی تعداد میں اپنے خاندانوں کے ساتھ بھاگ کر پاکستان آ گئے تھے۔ تب پاکستان نے یورپ اور امریکا کے کہنے پر ان لوگوں کے لیے اپنی سرحدیں کھول دی تھیں۔ اسلام آباد کے ہوٹل ایسے افغان مہاجرین سے بھر گئے تھے۔ ان میں سے بہت سوں کو ویزے دے کر پاکستان سے نکال لیا گیا تھا۔ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافے کو کسی حد تک ان سابق افغان فوجیوں کی پاکستان میں موجودگی سے بھی جوڑا جاتا ہے۔
جو میڈیا ٹیمیں مانیٹرنگ کررہی ہیں ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے مہاجرین کو نکالنے کی کارروائی بظاہر بےترتیب اور غیرمنظم لگتی ہے لیکن یہ بہت سوچی سمجھی اور منظم مہم ہے۔ اب تک پنجاب اور سندھ سے مہاجروں کو واپس کیا جا رہا ہے۔ جلد ہی خیبرپختونخوا سے واپس جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔
خیبرپختونخوا میں تھانوں کی سطح پر کمیٹیاں بنائی گئی ہیں، ان کمیٹیوں میں انٹیلیجنس ایجنسیوں، اسپیشل برانچ اور بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو ممبر بنایا گیا ہے، یہ گلی محلہ کی سطح پر جا کر فہرستوں کی تیاری اور تصدیق کررہی ہیں۔ نادرا ریکارڈ میں جعلی اندراج کرانے پر مدد کرنے والے کونسلروں کے خلاف بھی قانونی کارروائی کا عمل شروع ہے۔ اب تک پنجاب اور سندھ سے واپس جانے والوں کی تعداد زیادہ ہے، جلد ہی خیبرپختونخوا سے واپس جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ یہی رفتار جاری رہی تو 10 لاکھ لوگوں کو نکالنے کا ہدف بہت جلدی حاصل کرلیا جائے گا۔
غیرقانونی طور پر کسی ملک میں موجود لوگوں کو نکالنے کا عمل بھی طلاق جیسا ہی ہوتا ہے۔ یہ جتنا بھی امن اور سکون سے کیا جائے، ناخوشگوار عمل ہی رہتا ہے۔ اس سے انسانی المیہ جنم لیتا ہے، جس کے پاس پیسے ہیں وہ تو جعلی کارڈ بنا کر بھی اپنا قیام طویل کر سکتا ہے۔ جس غریب کا بس نہیں چل رہا، وہ قابو آیا ہے اور واپس بھجوایا جا رہا ہے۔ لوگ دہائیوں تک ایک دوسرے کے اچھے ہمسائے رہے ہیں، یوں نکالے جانے پر نظریں ملانے جوگا ضرور رہنے دینا چاہئے۔
کوئی مشترکہ طریقہ کار ہونا چاہیے۔ طریقہ کار کی بات لکھتے خیال آیا ہے کہ ہم اتنی دور تک سوچتے کب ہیں، سوچتے ہوتے تو ایک معاہدہ ہی دونوں حکومتیں کر لیتیں جس میں یہ طے کرلیا جاتا کہ لوگ پاسپورٹ پر یا شناختی کارڈ پر سفر کرسکتے ہیں، اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں، جائیداد خرید اور بیچ سکتے ہیں۔ راستہ دیا جاتا تو غیردستاویزی بہت سے کاروبار جو افغان کرتے ہیں وہ دستاویزی بھی ہو جاتے اور ٹیکس نیٹ میں بھی آ جاتے۔ 50 سال کی میزبانی کے بعد برے سلوک کا طعنہ لینے سے بھی ہم بچ جاتے۔