ایسا لگتا ہے کہ عدم استحکام اور پاکستان ایک ساتھ جڑے ہیں۔ بھارت کے ساتھ جنگیں، مشرقی پاکستان کی علیحدگی، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، جہاد اور 90ء کی دہائی میں سیاسی عدم استحکام، پھر مشرف دور میں 9/11 کے اثرات اور سیکیورٹی اور دہشت گردی کی انتہائی سنگین صورتحال نے ملک کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا۔ اس کے بعد تبدیلی اور مذہب کے نام پر دھرنوں نے ملک کا پہیہ جام کیے رکھا۔ عمران خان کے دور میں ’ایک صفحے‘ پر رہتے ہوئے عدلیہ اور نیب نے ایسا معاشی عدم استحکام پیدا کیا کہ کاروباری افراد نے اربوں ڈالر ملک سے باہر منتقل کردیے۔
عمران خان کی حکومت جاتے ہی پی ڈی ایم کے دور میں مہنگائی کی یلغار اور بے یقینی کی صورتحال کے باعث پیسے کے ساتھ لوگ بھی ملک سے باہر منتقل ہونا شروع ہوگئے۔ ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ افغانستان میں کرزئی دور میں بھارت کے گٹھ جوڑ سے پاکستان میں دہشت گردی کے الزامات اور اب ہمارے ’دیرینہ ساتھیوں‘ کی طالبان حکومت کوتحریک طالبان پاکستان کی سرپرستی کرنے اور ملک میں دہشت گرد حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ ہمیں یہ اندازہ ہی نہ ہوسکا کہ طالبان حکومت ٹی ٹی پی سے دشمنی مول نہیں لے سکے گی۔ افغان حکومت نے ٹی ٹی پی کے لوگوں کو جیلوں سے نکالا اور ہم نے انہیں پاکستان میں آباد کرنے کی ٹھان لی۔
اب اگرچہ دعوے کیے جا رہے ہیں کہ الیکشن کی تاریخ آتے کچھ حد تک ملک میں بے سکونی کم ہوگی مگر الیکشن میں کھلم کھلا مداخلت سے عوام کا کھویا اعتبار لانا انتہائی مشکل ہے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تو ملک میں الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے شبہات اور بے یقینی کی صورتحال ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کردیا، جس کے بعد الیکشن کمیشن اور صدر پاکستان عارف علوی ایک حتمی تاریخ پر الیکشن کے انعقاد کے لیے متفق ہوگئے۔ بالآخر ملک میں 8 فروری 2024ء کے عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ سیاسی جماعتوں نے نئی صف بندیاں شروع کردیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز نے سندھ اور کراچی میں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ ایم کیو ایم اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا ہے، جس کے بعد اب پارٹی نے بلوچستان میں ‘باپ’ پارٹی سے بھی مذاکرات پر رضامندی کا اظہار کردیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے نواز شریف کی آمد سے پہلے ہی لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے پر آوازیں بلند کرنا شروع کردی تھیں اور نواز شریف کو ’سلیکٹرز‘ کا لاڈلا قراردے دیا تھا۔ مسلم لیگ نواز کے سندھ میں نئے انتخابی اتحاد کے بعد پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو الیکشن میں مساوی مواقع فراہم کرنے پر زور ڈالنا شروع کردیا ہے جبکہ پارٹی رہنماؤں نے مسلم لیگ نواز کے خلاف تحریک انصاف کے ساتھ انتخابی اتحاد کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔
2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کو ہر صورت اقتدار میں لانے کی خاطر اس کے مخالفین کو زک پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ اب اسی تحریک انصاف کو انتخابات سے دور رکھنے کے لیے 2018ء سے بھی دگنی کوششیں کی جارہی ہیں۔ یہ سلسلہ 1988ء سے بلا روک ٹوک جاری و ساری ہے۔ اس سیاسی مداخلت کو روکنے کے لیے نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو کے درمیان ہونے والے تاریخی میثاق جمہوریت کا پی ٹی آئی نے خوب مذاق اڑایا جس کا خمیازہ اب بھگت رہے ہیں۔ ان کے رفقا عمران خان کو گاہے بگاہے مشورے دیتے رہے کہ انہیں سیاسی جماعتوں سے مذاکرات نہ کرنے کی ضد توڑ دینی چاہیے مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔
وہ ہمیشہ سے سیاسی جماعتوں پر خاندانی تسلط کے خلاف آواز اٹھاتے رہے اور اس کے ساتھ انہوں نے اپنی جماعت میں ہر ممکن حد تک کوشش کی کہ ان کی جگہ کوئی اور نہ لے سکے۔ پاکستان کا المیہ یہی رہا ہے کہ بھٹو زرداری، شریف خاندان اور عمران خان اپنی جماعتوں میں کسی اور کی سربراہی کو برداشت نہیں کرسکتے۔ نواز شریف کے بغیر مسلم لیگ کو ایسا لگ رہا تھا کہ شاید الیکشن میں خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکے۔
عمران خان کی پارٹی کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ شاید پاکستان کی سیاسی تاریخ میں انتہائی غیرمعمولی ہے۔ 2018ء میں مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں کے خلاف بھی مقدمات، جیلیں، نااہلیوں کے ریکارڈ ٹوٹے مگر 2023ء میں تحریک انصاف کے خلاف ہونے والی کارروائیوں نے نئے ریکارڈ قائم کردیے ہیں۔