مودی اقتدار: 37 مسلمان مخالف فلمیں ریلیز، 2024 کے انتخابات سے قبل مزید 20 کی ریلیز متوقع

ہفتہ 11 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بھارتی فلم انڈسٹری بالی ووڈ میں یکے بعد دیگرے مسلمانوں کو منفی ظاہر کرنے والی فلموں کی بھرمار۔ نریندرا مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک 37 مسلمان مخالف فلمیں ریلیز ہو چکی ہیں۔ جب کہ 2024 کے انتخابات سے قبل 20 مسلمان مخالف فلموں کی ریلیز بھی متوقع ہے۔

اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق 2014 سے قبل مسلمان مخالف فلموں کی تعداد 17 تھی۔ زیادہ تر فلموں میں مسلمانوں کو ولن، دہشت گرد یا کسی مافیا کا حصہ دکھایا جاتا ہے۔ برصغیر کی مسلم تاریخ پر بننے والی فلموں میں بھی مسلمانوں کو ولن اور منفی کرداروں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

متنازع ترین مسلمان مخالف فلموں میں کشمیر فائلز، کیرالہ سٹوری اور لپ سٹک انڈر مائی برقعہ شامل ہیں۔ رواں برس ابتک 6 مسلمان مخالف فلمیں ریلیز ہوچکی ہیں۔ فلموں میں گودھرا، مشن مجنوں اور 72 حوریں شامل ہیں۔

پانی پت، پدماوت اور ٹیپو میں حقائق کے برعکس مسلمانوں کو ولن کے طور پر پیش کیا گیا۔ فلم ٹیپو میں مضحکہ خیز دعویٰ کیا گیا کہ شیر میسور نے 40 لاکھ ہندوؤں کو جبراً مذہب تبدیلی پر مجبور کیا۔ فلم میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ ٹیپو سلطان نے 8 ہزار مندر تباہ جبکہ ایک لاکھ سے زائد ہندوؤں کو پاپند سلاسل کیا تھا۔

ادھر فلم ادھی پرش، رامائن اور باہوبلی میں ہندوؤں کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مودی کی چاپلوسی میں بالی ووڈ نے مودی پر بھی فلم بنا ڈالی۔ فلم ’گودھرا‘ میں تو گجرات میں ہوئے مسلم کش فسادات کا ملبہ ہی مسلمانوں پر ڈال دیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ مودی سرکار نے حکومتی ناقدین کے خلاف سخت کارروائی کی تھی، جس میں سب سے اہم گجرات میں ہوئے مسلم کش فسادات میں مودی کے کردار کے بارے میں بی بی سی کی دستاویزی فلم پر پابندی بھی شامل ہے۔

فلم ڈائریکٹر انوپ راگھو کا کہنا ہے کہ بالی ووڈ اور مودی سرکار کے درمیان مشترکہ مفادات کا رشتہ ہے۔ سیاسی فوائد کے لیے مودی سرکاری کئی مسلمان مخالف فلموں پر ٹیکس کی چھوٹ بھی دیتی ہے۔ کشمیر فائلز اور کیرالہ سٹوری کو ٹیکس چھوٹ اور بی جے پی کی طرف سے سیاسی سرپرستی بھی حاصل تھی۔

انوپ راگھو نے مزید کہا کہ 2019 کے انتخابات سے قبل بھی بی جے پی نے بالی ووڈ کو مسلمان مخالف فلمیں بنا کر سیاسی فوائد کے لیے استعمال کیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp