سیاست مفادات کا کھیل ہےجس کے رنگ بھی نرالے ہیں اور اس میں ہر روز نیا رنگ دیکھنے کو ملتا ہے۔ جس میں سیاسی اصول اور نظریات بدلتے رہتے ہیں۔ دوستوں کو دشمنوں کا روپ دھارتے اور اصول پسند سیاستدانوں کو مصلحتوں کا شکار ہوتے لمحے نہیں لگتے۔ ناممکنات کو ممکنات بنانے کا فن شاید اسی کو کہتے ہوں گے۔ وہ جماعتیں جو ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہوتی ہیں، ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتی نظر آتی ہیں۔ خود اقتدار کی لڑائی بھائیوں، بہنوں اور خون کے رشتوں کو بھی اجنبی بنادیتی ہے۔
مختلف جماعتوں کے درمیان یہ لفظی جنگ پاکستان میں تو وقتا فوقتا نظر آتی ہے۔ سیاسی حلیفوں کو اچانک حریف بنتے دیکھتے ہیں۔ ”قاتل لیگ“ کو گلے لگاتے بھی دیکھا۔ لیکن پاکستان کی سیاست میں عجیب رنگ اب پڑرہے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ کیسے یک جان دو قالب ہیں۔ لیکن اقتدار کی رسہ کشی نے ایسا بدلا کہ یقین کرنا مشکل ہوتا ہے۔
اب ایک اور دلچسپ منظر دیکھنے کو مل رہا ہے جس میں باپ بیٹامدِ مقابل ہیں جو اس سیاسی کھیل میں اِن ہونے کی کوشش جاری کیے ہوئے ہیں جس سے انہیں نکال باہر کیا گیا ہے اور ان کی جگہ نواز شریف کو دے دی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کا تو خیال ہے کہ شاید انہیں لگتا ہے کہ کھیل ابھی جاری ہےاور کھلاڑی بدلنے کی توقع بھی ہے۔ اسی لیے وہ مقتدر قوتوں کی آنکھوں کا تارا بننے کے لیے نیا کھیل کھیل رہے ہیں۔ کیونکہ سیاست کی گتھی سلجھانے والے جانتے ہیں اگر آج کوئی اور منظورِ نظر ہے تو کل کسی اور کی باری بھی آسکتی ہے ۔
ایسے سیاستدانوں کی تعریف غالب نے اپنے ایک شعر میں کچھ اس طرح کی ہے
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کُھلا
بلاول بھٹو بھی جانتے ہیں کہ مقتدرہ کا قُرب انہیں اقتدار سے قریب کرسکتا ہے اسی لیے خواب کی تعبیر پانے کے لیے کئی بار فرمائشی پروگرام بھی چلائے۔ لیکن شاید مقتدرہ ایک بار پھر نیا تجربہ کرنے کو تیار نہیں اور پیپلز پارٹی کو ہری جھنڈی دکھا دی گئی ہے۔ اسی لیے بلاول بھٹو جلسوں میں کھلے عام کہتے نظر آتے ہیں کہ اب کوئی سلیکٹڈ قبول نہیں۔ لیکن وہ اس سے بھی دو قدم آگے نکل گئے اور ”بزرگ“ سیاست دانوں کو نشانے پر رکھتے رکھتے اپنے والد کو بھی ہدف بناڈالا۔
اس سے پہلے بھی بلاول اپنے والد کی سیاست پرسوال اٹھا چکے ہیں کہ نواز شریف اور آصف زرداری کو ایسے فیصلے کرنے چاہییں جس سے میرے لیے اور مریم صاحبہ کے لیے سیاست آسان ہولیکن ایسا لگ رہا ہے کہ ہمارے بڑوں نے فیصلہ کیا ہے کہ جو 30سال انہوں نے سیاست بھگتی ہےاگلے 30سال ہم وہی سیاست کریں۔
لیکن آصف زرداری نےاچانک ایک انٹرویو کے ذریعے بھونچال برپا کردیا۔ کچھ لوگ تو اسے ”پلان“ قرار دے رہے ہیں۔ اس انٹرویو کو بھی اسی کا حصہ کہتے نظر آرہے ہیں لیکن بہرحال جو جملے آصف زرداری نے اپنے بیٹے کے لیے استعمال کیے، کیسے پیپلز پارٹی اس سے جان چھڑاپائے گی؟ کیسے وہ آخر میدان میں اُترکر لوگوں سے کہے گی کہ ہمیں ووٹ دیں تاکہ ہم ایک ”غیرتجربہ کار“ بلاول بھٹو کو ملک کا وزیراعظم بنادیں؟ لہٰذا بلاول پر وار تو ہوا ہے اور وہ بھی کہیں اور سے نہیں، اپنے والد کی طرف سے۔
بظاہر تو اختلافات کا یہ آغاز لگ رہا ہے لیکن اگر واقعی ایسا ہے تو یہ آغاز کافی پہلے ہوچکا ہے۔ اگر یہ جینوئن لڑائی ہے تو پھر لگتا یہ ہے کہ پانی بہت سا گزرچکا ہے۔ کیونکہ بلاول بھٹو نے اپنی پروفائل پکچر تبدیل کر کے اعلانِ بغاوت بھی کردیا اور اپنے والد کو پیغام دیا کہ میں آپ کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اچانک دبئی روانہ ہوگئے اور ان کے پیچھے آصف زرادری نے بھی اڑان بھری تاکہ معاملات کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کیا جا سکیں۔
جہاں ایک طرف اختلافات کا بازار گرم ہےاورچند حلقوں کا کہنا ہے کہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے درمیان تنازعات جنم لے چکے ہیں وہیں چند واقفانِ حال کہتے ہیں کہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے بلکہ بلاول بھٹو اور آصف زرداری بھی شریف خاندان کی طرح وہ گڈ کاپ اور بیڈ کاپ کھیل رہے ہیں اور یہ ان کی سیاسی حکمتِ عملی ہے ۔اگر ایک مزاحمتی بیانیہ اپناتا ہے تو دوسرا مفاہمت شروع کر دیتا ہے جس کا نتیجہ بالآخر فائدے کی صورت ہی نکلتا ہےاور یہی فائدہ اب پیپلز پارٹی اٹھانا چاہتی ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ بلاول بھٹو کے بیانات اور آصف زرداری کا انٹرویو باقاعدہ حکمت عملی کا حصہ ہے کیونکہ بلاول بھٹو کا اتنا کھلا میدان نہیں دیا گیا کہ وہ کھل کھیل سکیں۔ فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ بلاول بھٹو مزاحمت کریں گے اور آصف زرداری مفاہمت۔ پیپلز پارٹی بھی اسی راہ کی مسافر بن چکی ہے جس کی مسافرن لیگ تھی لیکن دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی عہدہ بحالی مہم سے کیا حاصل کرپائے گی اورا قتدار کی اس میوزیکل چیئر کے لیے ان کی نئی حکمت عملی اگلے انتخابات میں ان کو فائدہ پہنچا سکے گی یا رہی سہی پیپلز پارٹی سندھ میں بھی محدود ہوکر چند اضلاع تک رہ جائے گی؟