ہمارا بھارت مہان کینیڈا میں ایک سکھ رہنما کے قتل کی کامیاب اور امریکا میں ناکام سازش میں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے۔ اکانومسٹ نے امریکی جسٹس ڈیپارٹمنٹ کی شیئر کر دہ معلومات پر اسٹوری کی ہے۔ اس کے مطابق ایک انڈین اہلکار آرمز اور ڈرگ اسمگلر سے رابطہ کرتا ہے۔ اسے نیویارک میں ایک سکھ رہنما گرپتونت سنگھ کو مارنے کا ٹارگٹ دیتا ہے۔ ڈرگ اسمگلر ایک قاتل سے رابطہ کرتا ہے۔ وہ قاتل خیر سے امریکا کی ڈرگ انفورسمنٹ ایڈمنسٹریشن کا ایجنٹ ہوتا ہے۔ سارا پروگرام بقول مروت صاحب ’وڑ‘ جاتا ہے ۔
انڈیا کوارڈ الائنس میں امریکا، آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ شامل ہے۔ یو ٹو آئی ٹو کے نام سے ایک دوسرا اتحاد ہے جہاں یو اے ای، یو ایس اے، اسرائیل اور انڈیا اکٹھے ہیں۔ امریکا اور انڈیا سیکیورٹی معاملات پر ایک دوسرے سے قریبی تعاون کرتے ہیں اور چین کے خلاف ایک پیج پر ہیں ۔ اس کے علاوہ انٹیلی جنس شیئرنگ کے بھی دونوں نے کئی معاہدے کر رکھے ہیں۔ اگست 2022 میں انڈیا کے ملٹری اتاشی کو پینٹاگان میں بغیر سیکیورٹی نگرانی کے رسائی فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔
امریکا کا اتنا پیارا لاڈلا انڈیا اور اس کی ایجنسی امریکا میں ہی بندے مارنے کی اسکیمیں بناتی پکڑی گئی ہے۔ انڈیا کے ساتھ انٹیلی جنس تعاون پر اب بہت سے سوال کھڑے ہو گئے ہیں۔ امریکی سینیٹ کی انٹیلی جینس کمیٹی کے ممبر اب اپنی حکومت کا حساب کتاب لازمی کریں گے اور ہلکی آنچ پر فرائی بھی کریں گے۔
قطر پہلے ہی انڈین نیوی کے 8 اہلکاروں کو ان کی خدمات کے اعتراف میں سزائے موت سنا چکا ہے۔ یہ 8 انڈین اسرائیل کے لیے قطر کی جاسوسی کرنے میں ملوث پائے گئے تھے۔ قطر وہ ملک ہے جہاں امریکی بیس ہیں۔ قطر کا العدید بیس یو ایس ایئر فورس اور ملٹری کی سنٹرل کمانڈ کا ہیڈ کواٹر بھی ہے ۔
قطر سفارتی تنازعات طے کرنے کے لیے بہت سرگرم کردار ادا کرتا ہے۔ افغان طالبان کے ساتھ دوحہ معاہدہ ہوا۔ اسرائیل حماس کے قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ، ایران کے ساتھ معاملات، الغرض کوئی بھی بڑا عالمی تنازع ہو قطر والے خاموشی سے اس میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں جو اکثر بہت موثر ہوتا ہے۔ انڈیا خیر سے قطر کو بھی خوش کر بیٹھا ہے۔
امریکا چین کے خلاف انڈیا کو ایک موثر اتحادی سمجھتا تھا۔ اس کو بطور ریجنل قیادت بہت مدد اور سہولیات فراہم کر رہا تھا۔ پھر ایک دن انڈیا والے چینیوں سے ایل اے سی پر چپیڑیں کھا بیٹھے۔ ہتھیاروں کے بغیر ہونے والی اس لڑائی میں انڈیا کے 20 فوجی مارے گئے۔ انڈیا کی دنیا میں تو جو سبکی ہونی تھی وہ ہوئی۔ ٹیلی گراف کلکتہ نے مودی کی چھیڑ ہی بنا لی تھی۔ کسی بھی اہم ایشو پر توجہ دلاتے اکثر اخبار ہیڈ لائن لگاتا کہ مودی جی اس ایشو پر تو بولو یہ کوئی چین ہے کہ یوں چپ ہوئے بیٹھے ہو۔
چینی میڈیا میں ایک دو رپورٹیں انڈین تعریف میں چھپی تھیں۔ ان میں کہا گیا تھا کہ انڈیا پریشر میں بھی اپنی خارجہ پالیسی کے فیصلے آزادانہ طور پر کرتا ہے۔ یہ حریف کے منہ سے تعریف تھی اور غیر متوقع تھی۔ تب اس کی وجہ کوئی سمجھ نہیں آئی تھی۔ جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو انڈیا نے امریکا یورپ کی لائن ٹو کرنے سے گریز کیا۔ روس یوکرین تنازع میں کافی حد تک نیوٹرل رہا۔ روسی تیل بیچ کر مال بناتا رہا۔ جرمنی جو روس سے گیس بند ہونے کے بعد سردی سے ٹھٹھر رہا تھا اس کی وزیر خارجہ نے انڈیا کی کشمیر میں زیادتیوں کے خلاف گرما گرم بیانات دیے۔
طاقت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آپ غلط بات پر اصرار کرو اور پھر اس کو منوا لو۔ جیسے بھیڑیے نے بھیڑ کو اوپر سے آنے والے پانی کو نیچے کھڑے کھڑے گدلا کرنے کا ذمہ دار قرار دیا تھا اور پھر اس کو کھا گیا تھا۔ انڈیا بھی خود کو بطور طاقت منوانا چاہتا ہے۔ اس کے لیے اب وہ کینیڈا، امریکا اور قطر کو سیدھا ہوا کھڑا ہے۔ بتا رہا ہے کہ عالمی قانون گئے تیل لینے اور ہم اپنے دشمن کو دنیا بھر میں ٹارگٹ کر سکتے ہیں۔ ہم سے ڈرو۔
اتنی ٹینشن چل رہی ہے۔ انڈیا ہر طرف ہے اور ہمارا ذکر ہی نہیں۔ قیامت کی ہی نشانی ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ جہاں مامتا وہاں ڈالڈا۔ جدھر کوئی رولا ہو گا ادھر پاکستان لازمی ہو گا۔ یہاں تو ہمارا بنتا بھی ہے۔ انڈیا جس طرح ساری دنیا میں کھلا پھر رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مصروف تھے۔ کبھی تبدیلی لا رہے تھے۔ کبھی ویسے ہی دنیا سے جھڑکیاں کھا رہے تھے۔ پیسے ہمارے پاس نہیں تھے۔ سیاست ہماری اوپر نیچے ہوئی پڑی تھی ۔ انڈیا اتنے کارنامے کر چکا ہے کہ ساری دنیا کو پاکستان کی طرف متوجہ کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں ہونے والی بہت سی تبدیلیاں، الیکشن، آنے والی حکومت، جانے والی حکومت اور معیشت، سب کو اس اینگل سے بھی دیکھیں۔ بہت کچھ نیا سمجھیں گے ۔ ایک بات پکی ہے کہ اتنے امکانات میں بیلنس رکھنے اور فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیں اپنا چہرہ سیاسی ہی رکھنا ہے۔ جو فائدے سیاسی قیادت حاصل کر سکتی ہے وہ بیچارہ حوالدار بشیر نہیں لے سکتا کیوںکہ وہ اتنا چالاک اور ہوشیار نہیں ہے۔ یہ مل جل کر ہی ہو گا۔