افغان طالبان کو مولانا فضل الرحمان کی کابل آمد کا انتظارہے۔ ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا ہے ’محترم مولانا فضل الرحمان صاحب کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ افغانستان آئیں۔ مملکت پاکستان اور پاکستانی عوام کے حوالے سے افغان عوام اور امارت اسلامیہ کے عزائم سے آگاہی حاصل کریں اور پھر جاکر پاکستانی عوام کو بتائیں کہ ہم کبھی نہیں چاہتے کہ خدانخواستہ پاکستان میں بدامنی ہو۔ پاکستان سے ہمارے تعلقات خراب ہوں یا پاکستان کے خلاف کوئی اقدام کیا جائے۔ ہم ہرگز یہ نہیں چاہتے۔ اور اس حوالے سے مولانا فضل الرحمان صاحب بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں‘۔
تارکین وطن کے عالمی دن کے موقع پر افغان وزیر اعظم ملا حسن اخوند، نائب وزرا اعظم ملا عبدالغنی برادر، ملا عبدالسلام حنفی اور مہاجرین کے وزیر خلیل الرحمان حقانی نے بیانات جاری کیے ہیں۔ ان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں 7 لاکھ لوگوں کو زبردستی واپس بھجوایا گیا ہے۔ ان کے ساتھ نازیبا سلوک ہوا ہے اور افغان مہاجرین کے مسئلے کا سیاسی استعمال بند کیا جائے۔
افغان حکومت پاکستان کا دباؤ محسوس کر رہی ہے۔ اب مولانا فضل الرحمان کے ذریعے اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے سہولیات اور نرمی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ایک تازہ پیشرفت یہ ہے کہ یو این کمیٹی نے افغان طالبان کو یو این میں مستقل نمائندے کی سیٹ دینے سے انکار کر دیا۔ آرمی چیف کی یو این سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس سے 2 دن پہلے ملاقات ہوئی ہے ۔ اس ملاقات کے بعد یہ فیصلہ آنا معنی خیز ہے۔
پاکستان نے افغان طالبان کی عالمی فورم پر حمایت بند کر رکھی ہے، پہلے پاکستان افغان طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی شدت سے حمایت کرتا آ رہا تھا۔ ٹی ٹی پی کے پاکستان میں جاری مسلسل حملوں کے بعد پاکستان نے افغان حکومت کی عالمی فورم کو حمایت فراہم کرنے کی اپنی پالیسی ترک کر رکھی ہے۔ افغان طالبان نے یو این کمیٹی کے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے اور اس کی مذمت کی ہے۔
افغان طالبان کے لیے ٹی ٹی پی کی سپورٹ کرنے کی قیمت بڑھائی جا رہی ہے۔ افغان مہاجرین کی واپسی اور ٹرانزٹ ٹریڈ پر مختلف قسم کی رکاوٹیں نافذ کی گئی ہیں۔ افغانستان نے سہیل شاہین کو یو این میں اپنا مستقل مندوب مقرر کیا تھا۔ جس کو تسلیم کرنے سے یو این کمیٹی نے انکار کر دیا ہے۔ افغان طالبان اس وقت پاکستان میں اپنے خلاف پالیسی میں نرمی کے لیے مولانا فضل الرحمان سے رابطے میں ہیں جبکہ چین کے کابل میں موجود سفیر بھی صورتحال کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
الیکشن سر پر ہیں، مولانا فضل الرحمان کی جماعت جے یو آئی کپتان کی پی ٹی آئی کی اصل اپوزیشن رہی ہے، میدان میں سامنے رہ کر پی ٹی آئی حکومت کو للکارتے، دھمکاتے جے یو آئی نے یہ وقت گزارا۔ مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی میں تب بھی بہت کلیئر تھے جب مسلم لیگ ن اور پی پی پی بار بار اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے نرم گرم سگنل دے رہی تھیں۔ ایک وقت میں ایسا لگ رہا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کی واضح مخالفت کرنے کی پالیسی ان کو بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی آئندہ حکومت دلوا دے گی۔ اس کے ساتھ شاید سندھ اسمبلی میں بھی ان کی پارٹی پارلیمانی نمائندگی حاصل کر لے گی۔
عدم اعتماد کے بعد جے یو آئی وفاقی حکومت کا حصہ بن گئی۔ کپتان کی مقبولیت ٹریگر ہو گئی۔ حکومت کی عدم کارکردگی کا سب سے زیادہ نقصان جے یو آئی کو ہوا۔ مسلم لیگ ن نے جو سروے کروائے ان میں اندازہ ہوا کہ خیبر پختونخوا میں جے یو آئی کی مقبولیت تیزی سے کم ہوئی ہے۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن نے خیبر پختونخوا میں ہاتھ پیر ہلانے اور کوئی اسپیس حاصل کرنے کی کوشش شروع کی۔ بلوچستان جہاں جے یو آئی ایک وقت میں حکومت بناتی لگ رہی تھی وہاں الیکٹیبلز کی بھاری تعداد مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی لے اڑے ہیں۔
مولانا ایک ایسی سیاسی صورتحال کا شکار ہیں جس میں وہ کسی سے گلہ بھی نہیں کر سکتے۔ سیکیورٹی تھریٹ کا بھی انہی کی پارٹی کو سامنا ہے۔ خبریں یہ بھی آ رہی ہیں کہ پشتونخواہ میپ اور جے یو آئی بلوچستان میں اتحاد کریں گی۔ خود مولانا بھی شاید بلوچستان سے الیکشن لڑیں۔ خیبر پختونخوا میں اے این پی، پی پی پی، آفتاب شیر پاؤ، پرویز خٹک اور مسلم لیگ ن سب ہی کو جے یو آئی سے اتحاد کی ضرورت ہے۔ جس سے بھی اتحاد یا ایڈجسٹمنٹ ہوئی اس کو اپنے حصے سے کچھ دینا ہی پڑے گا۔
سیاسی اور الیکٹورل حوالے سے مولانا کو سنگین مشکلات کا سامنا ہے۔ سیکیورٹی تھریٹ اس کے علاوہ ہیں، اب ادھر کوئی اور پارٹی ہوتی تو اس کی لیڈر شپ نے تھرتھلی مچا رکھی ہوتی کہ لٹ گئے، ہمارے ساتھ ہاتھ ہو رہا ہے۔ مولانا سے افغان طالبان نے اس موقع پر رابطہ کیا ہے، یہاں ویسے ہی موقع کے حساب سے آصف زرداری کی سمجھداری اور شرارتی جملے کی شدت محسوس کریں۔ گورنر ہاؤس پشاور میں آصف زرداری نے ووٹر لسٹوں میں افغان شہریوں کے اندراج کی طرف توجہ دلاتے ہوئے الیکشن کمیشن کو اس کا کچھ کرنے کو کہا۔ وہ شاید مولانا کو افغان رابطوں کے فائدے نقصان بتا رہے تھے۔
اس وقت جنرل عاصم منیر امریکا میں ہیں، امریکا پاکستان سے افغان مہاجرین کو نکالنے کے حوالے سے نرمی کا کہہ رہا ہے۔ افغان طالبان کی داعش، خراسان کے خلاف کارروائیوں کی امریکی بہت تعریف بھی کر رہے ہیں جبکہ ٹی ٹی پی کے حوالے سے ظاہر ہے وہ پاکستان جتنا فکر مند نہیں ہیں بلکہ افغان طالبان کے موقف کے زیادہ قریب ہیں کہ اگر ان کے خلاف افغان طالبان نے کارروائی کی تو یہ داعش سے جا ملیں گے۔ مولانا ایک سمجھدار سیاستدان ہیں اس موقع پر ان کی سیاسی منطق درمیانی راستہ ایسا نکالنے کی کوشش کرے گی کہ وہ ایک وقت سیز فائر کروانے پر افغان طالبان کو آمادہ کریں۔
جے یو آئی نسبتاً ایک چھوٹی سیاسی جماعت ہے جس کی پاکستان میں محدود سی پارلیمانی نمائندگی ہوتی ہے۔ اپنے سائز سے بڑا رول ادا کرتے ہوئے مولانا ایک سفارتی ٹربل شوٹنگ کا سینٹر پوائنٹ بن گئے ہیں۔ یہ موقع انہیں تب ملا ہے جب افغان مہاجرین کے مسئلے پر کپتان ریاستی پالیسی کے مخالف پوزیشن لے چکا ہے۔ اس ساری کہانی کے پس منظر کو پاکستان کے حالات کے پس منظر میں دیکھیں تو تقسیم کی وجہ بھی سمجھ آتی ہے اور یہ بھی پتا لگتا ہے کہ کون کدھر اور کیوں کھڑا ہے۔