تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم اور انتخابی نشان واپس لینے کی فیصلہ کیخلاف پشاور ہائیکورٹ کے حکم امتناع کو الیکشن کمیشن کی انٹرا کورٹ اپیل میں کالعدم قرار دیے جانے کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان نے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔
بیرسٹر گوہر علی خان نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ الیکشن کمیشن کی درخواست قابل سماعت ہی نہیں تھی، انہوں نے سپریم کورٹ سے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔
اپیل کو کل جمعہ کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا کرتے ہوئے اپنی درخواست میں پی ٹی آئی سربراہ نے موقف اختیار کیا ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے برعکس پی ٹی آئی کے خلاف امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے، الیکشن کمیشن نے بلے کا انتخابی نشان واپس لیتے وقت شواہد کو مدنظر نہیں رکھا۔
’بغیر شواہد فیصلہ کر کے بلے کا انتخابی نشان چھینا گیا۔۔۔ پشاور ہائیکورٹ نے بھی فیصلے میں حقائق کو مدنظر نہیں رکھا۔۔۔ پشاور ہائی کورٹ کے جج نے قانون کی غلط تشریح کی جس کے باعث ناانصافی ہوئی ۔۔۔ الیکشن کمیشن کو اس معاملے میں نوٹس جاری کرنا ضروری نہیں تھا۔‘
اپنی درخواست میں بیرسٹر گوہر خان کا موقف تھا کہ 26 دسمبر 2023 کو پشاور ہائیکورٹ نے عارضی ریلیف دیا تھا، عبوری ریلیف سے قبل فریقین کو نوٹس دیا جانا ضروری نہیں، ناقابل تلافی نقصان کے خدشات کے تحت عبوری ریلیف دیا جاتا ہے، پشاور ہائی کورٹ کو بتایا کہ بلے کا نشان نہ ملنے سے ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔
درخوست کے مطابق پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ الیکشن کمیشن کی درخواست قابل سماعت ہی نہیں تھی، دیگر سیاسی جماعتوں کے برعکس پی ٹی آئی کے خلاف امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے، پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ غیر قانونی ہے کالعدم قرار دیا جائے۔
سپریم کورٹ میں غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر خان نے بتایا کہ وہ سپریم کورٹ چند اہم درخواستوں پر دستخط کرنے آئے تھے، بلے کے انتخابی نشان کے لیے آج درخواست جمع کروا رہے ہیں، سپریم کورٹ سے درخواست کریں گے ہمیں سنا جائے۔
’الیکشن کمیشن نے اپنی درخواست میں لکھا تھا یہ اہم ترین معاملہ ہے، ہماری بھی یہی استدعا ہے اسکروٹنی کا وقت ختم ہو رہا ہے ٹکٹ تقسیم کرنا ہے، کوشش ہے جلد سے جلد اس کی سماعت ہو اور اللہ کرے بلے کا نشان ملے، ہمیں امید ہے۔‘