چیف جسٹس قاضی فائزعیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے تحریک انصاف کے انتخابی نشان کی بحالی کے لیے دائر درخواست پر آج سماعت کرنا تھی، لیکن سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی جانب سے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر دی۔
چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ میں پہلے ہی یہ کیس موجود ہے، اور ہائیکورٹ میرٹ پر اس کیس کو سن رہی ہے، کیونکہ مین کیس کا فیصلہ آج کسی بھی وقت متوقع ہے، اس لیے سپریم کورٹ سے جو رجوع کیا تھا وہ واپس لے رہے ہیں۔
پشاور ہائیکورٹ سے اچھا فیصلہ آنے کی توقع ہے اس لیے سپریم کورٹ سے درخواست واپس لے لی ہے، فیصلہ آنے کے بعد دیکھیں گے کہ سپریم کورٹ میں واپس جانا ہے یا نہیں ہے۔
اس سے قبل سماعت کے لیے جو بینچ بنا تھا اس میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھیں، لیکن اب سماعت نہیں ہوگی۔
پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کے حکم کو بحال کرنے کے فیصلے کیخلاف پی ٹی آئی نے 4 جنوری کو سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، پیر کو پی ٹی آئی کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈ کی درخواست کی سماعت کے دوران انتخابی نشان ’بلے‘ کی بحالی کی درخواست سماعت کے لیے مقرر کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان اور انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق الیکشن کمیشن کا 22 دسمبر کا فیصلہ بحال کردیا تھا جس کے بعد پارٹی اپنے انتخابی نشان سے محروم ہوگئی تھی، پشاورہائیکورٹ کے اسی فیصلے کیخلاف پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
پی ٹی آئی کے وکلا بیرسٹر گوہر خان اور حامد خان نے رجسٹرار سپریم کورٹ سے ملاقات کر کے پی ٹی آئی کو بلے کا نشان دینے کے لیے دائر درخواست فوری سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا کی تھی۔
بیرسٹر گوہرعلی خان نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ الیکشن کمیشن کی درخواست قابل سماعت ہی نہیں تھی، انہوں نے سپریم کورٹ سے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے برعکس پی ٹی آئی کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے، الیکشن کمیشن نے بلے کا انتخابی نشان واپس لیتے وقت شواہد کو مدنظر نہیں رکھا، بغیر شواہد فیصلہ کر کے بلے کا انتخابی نشان چھینا گیا، پشاور ہائیکورٹ نے بھی فیصلے میں حقائق کو مدنظر نہیں رکھا، پشاور ہائیکورٹ کے جج نے قانون کی غلط تشریح کی جس کے باعث ناانصافی ہوئی، الیکشن کمیشن کو اس معاملے میں نوٹس جاری کرنا ضروری نہیں تھا۔
اپنی درخواست میں بیرسٹر گوہر خان نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ 26 دسمبر 2023 کو پشاور ہائیکورٹ نے عارضی ریلیف دیا تھا، عبوری ریلیف سے قبل فریقین کو نوٹس دیا جانا ضروری نہیں، ناقابل تلافی نقصان کے خدشات کے تحت عبوری ریلیف دیا جاتا ہے، پشاور ہائیکورٹ کو بتایا کہ بلے کا نشان نہ ملنے سے ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔
درخواست کے مطابق پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ الیکشن کمیشن کی درخواست قابل سماعت ہی نہیں تھی، دیگر سیاسی جماعتوں کے برعکس پی ٹی آئی کے خلاف امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے، پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ غیر قانونی ہے، کالعدم قرار دیا جائے۔