یہ مرد کا بچہ اپنی ذات کی نفی ہوجانے کے ڈر سے گالی بھی دے دیتا ہے اور تھپڑ بھی لگا آتا ہے . یہ اشتعال انگیزی یا طیش”، اگر مردوں میں نا ہو تو وہ مرد نہیں۔ یہ میں نہیں کہتی، یہ سماج کہتا ہے۔ مرد کہتے ہیں، اور مردوں کے دوست، گھر والے، خاندان والے اور ادھر اُدھر کے اجنبی مرد۔ سب ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔
اِس طیش کو کرکٹ میں خاص لفظ بھی دیا گیا ہے ’سلینگ‘،گوگل کریں۔شعیب اختر یا وسیم اکرم کا وکٹ لے کر بلے باز کو غصہ دلانا یا گیند بازی کے دوران بلےباز کو طعنے دے کر اشتعال دلانا، ہم سب پاکیستانیوں کے دل کو چھو جاتا تھا۔ ہمارے منہ سے بےاختیار نکلتا تھا ’واہ شیر لگا ہے، چھا گیا استاد، نپ کے رکھ، مار اسے بال، مار‘ اس طیش کو فاسٹ بولرز کی شان سمجھا جاتا تھا۔ وہ فاسٹ بولر ہی نہیں جو گالی نا دے، وہ مرد کا بچہ ہی نہیں۔مجھ سمیت زیادہ تر پاکستانیوں نے ان سب چیزوں کو بہت دیکھا اور سراہا ہے۔ لیکن اب کچھ بدلا ہے اور وہ بدلاؤ ہر کسی کو بھا نہیں رہا۔ وہ بدلاؤ یہ ہے کہ ’تو گالی نا بھی دے تو بھی مرد کا ہی بچہ رہے گا‘۔
ہماری نئی کرکٹ ٹیم نے شاید فیلڈنگ پر اتنی توجہ نہیں دی جتنی انہوں نے اپنے مزاج پر دی ہے۔ میری طویل زندگی میں یہ پہلی بار ہے کہ مجھے اپنی ٹیم ایک یونٹ کے طور پر نظر آئی۔ ورنہ کوئی نہ کوئی ناراض پھوپھو ضرور ہوتی تھی۔ نہ صرف بین الاقوامی سیریز میں بلکہ پی ایس ایل میں بھی جہاں وہ ایک دوسرے کے خلاف کھیلتے ہیں۔ اگر کسی کھلاڑی کی پرفارمنس سہی نا چل رہی ہو تو باقی ٹیم اس کی حوصلہ افزائی کرتی نظر آتی ہے۔ کیپٹن سے اگر پریس کانفرنس میں کوئی اکسانے والا سوال پوچھا جائے تو کیپٹن جواب دینے سے یا تو گریز کرتا ہے یا پِھر ٹیم کا خوبصورتی سے دفاع کرتا ہے۔
پاکستان سپر لیگ کے دوران دو ٹیموں کی طرف سے کھیلتے ہوئے بھی ہماری ٹیم کے کھلاڑی ایک دوسرے سے پیار محبت کا اظہار کرتے نظر آئے۔کبھی شرارت، تو کبھی مذاق، کبھی ایک ٹیم کے کھلاڑی دوسری ٹیم کے کھلاڑی کو حوصلہ دیتے ہوئے نظر آئے تو کبھی اک دوسرے کے ساتھ ہنستے مسکراتے۔ اکثر مخالف ٹیم کی وکٹ لینے کے بعد بولرز جا کے آؤٹ ہونے والے بیٹسمین کے ساتھ مذاق کرتے ہوئے نظر آئے۔ اور میرے چہرے پر بے اختیار ایک مسکراہٹ آ گئی۔ دنیا جس میں اپنی بیوی سے محبت کا اظہار کرنے پر ایک قیامت آ جاتی ہے، اس دنیا میں ایک دوسرے سے ’مرد کے بچے‘ نہیں بلکہ ’انسان کے بچے‘بن کے بات کرنا کچھ مختلف لگا، اور اچھا لگا۔
لیکن ہماری قوم کو جو نشہ گالم گلوچ کر کے ملتا ہے، اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اکثر لوگوں کو یہ دھیما پن زیادہ بھایا نہیں۔ اکثر لوگوں کو ہنستے مسکراتے کھلاڑی دیکھ کر متلی سی ہونے لگی ہے، کچھ نے میچ دیکھنا بند کر دیا، اور کچھ نے خود گالیاں دے کر پرانے وقتوں کو یاد کیا۔
حارث کا شاداب کو تنگ کرنا، رضوان کا مخالف بولر سے مذاق کرنا، میچ کے بعد سب کھلاڑیوں کا آپس میں چھیڑ چھاڑ کرنا، آخر اِس سے کیا مسئلہ ہو سکتا ہے ؟ نا صرف یہ بلکہ ان کے ہنسی مزاح سے پہلی بار ان کھلاڑیوں کی اصل زندگی والی شخصیت کا بھی اندازہ ہوا۔ ایک شخص کھلاڑی سےزیادہ اہم ہوتا ہے۔ اس کی شخصیت، اس کی زندگی کے تجربے، اس کا ہنسی مذاق، وہ کیا محسوس کرتا ہے، یہ سب کچھ آج کل کی سوشل میڈیا کی دنیا میں جاننا بہت ضروری ہے۔ کیوں کہ یہ ہم ہی ہیں جو بغیر سوچے سمجھے کھلاڑی کی پرفامنس پر اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر سوشل میڈیا پر تنقید شروع کر دیتے ہیں۔ اور وہ تنقید صرف وہاں تک نہیں رہتی، بلکہ ہم کھلاڑی کو اس کے گھر تک پہنچا کر آتے ہیں۔
تو کہنا بس یہ تھا کہ خوش رہنے دیں۔ یہ جو مرد سے ہر وقت تھکا دینے کی حد تک طیش کی امید ہوتی ہے، اسے تھوڑا کم کر کے دیکھیں۔ میرے لئے یہ کہنا کہ مرد پیاری چیز ہے تھوڑا مشکل ہے لیکن یہ کہنا آسان ہے کہ مرد کو خوفناک چیز نہ بنائیں۔