ندا فاضلی کی غزل کا ایک مصرعہ ہے۔
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
1981 میں بننے والی بھارتی فلم آہستہ آہستہ کے لیے آشا بھونسلے نے یہ غزل گائی۔ اس غزل کی موسیقی عہد ساز موسیقار خیام نے ترتیب دی تھی۔ خیام صاحب بھی لاہوریے تھے۔ پاکستان بننے سے پہلے ہی وہ بمبئی کی فلم انڈسٹری سے وابستہ تھے۔ اُس زمانے میں وہ شرما جی کے فلمی نام سے کام کیا کرتے تھے۔ ان کا اصل نام محمد ظہور احمد ہاشمی تھا۔ خیام صاحب ایک مشکل موسیقار تھے۔ ایک دفعہ گانے کے دوران انھوں نے لتا منگیشکر کو کہا تھا “لتا دھیان سے گا نا یہ نوشاد کی دُھن نہیں ”
خیام صاحب کے کریڈٹ پر امراؤ جان ،کبھی کبھی،رضیہ سلطانہ ،دلِ ناداں، درد،تھوڑی سی بے وفائی، جیسی بلاک بسٹر فلمیں ہیں۔ ان کا فلمی کیرئیر کئی دہائیوں پر مشتمل تھا۔ ان کے دو بھائیوں نے پاکستان میں بھی نام کمایا۔ عبدالشکور بیدل صاحب پہلے ریڈیو سے بطور فن کار منسلک تھے بعد ازاں وہ پروڈیوسر بھرتی ہوگئے۔ دوسرے بھائی مشتاق ہاشمی بھی بہت سریلے فن کار تھے۔ مشاق ہاشمی اور ڈاکٹرامجد پرویز نے پی ٹی وی کے لئے ایک گیت گایا ،
“اوڑک جانا مر وے، چل میلے نوں چلیے”
یہ مکھڑا لوک گیت کا تھا جس میں اضافہ کیا گیا اور پورے گیت کی شکل دی گئی۔
سینئر براڈ کاسٹر افضل رحمان صاحب نے بتایا،مشتاق ہاشمی بھی ریڈیو میں پروڈیوسر تھے۔ لیکن وہ صاحب آدمی تھا۔ اُنہیں وہ لقب پسند نہیں تھا جو گانے والوں کو ہمارے ہاں ” میراثی “کے نام سے دیا جاتا ہے۔ بعد ازاں مشتاق ہاشمی پی آئی اے میں بھرتی ہوگئے۔
عبدالشکور بیدل صاحب کے کریڈٹ پر بھی بڑے بڑے کام ہیں۔ ایک تو منظور جھلاّ کا گایا ہوا،
پیار کرن دا بَلیا،کیہ نتیجہ ہندا اے
اپنے وقت کا بہت مشہور گیت تھا۔ سن 65 کی جنگ میں نور جہاں کے جنگی ترانوں کے پروڈیوسر ا عظم خان نے بتایا کہ یہ گیت پہلے ریڈیو لاہور پر گایا گیا بعد ازاں یہ ایک فلم میں شامل کیا گیا۔
افضل رحمان کے مطابق سُلطان باہو کا کلام اب جس معروف دھن میں پڑھا جاتا ہے اس کے موجد بھی عبدالشکور بیدل صاحب ہی ہیں۔ انھوں نے ہی یہ دھن بنائی اورخود ہی سب سے پہلے انھوں نے اس دھن میں کلامِ باہو گایا۔ بعد ازاں بنگلہ زبان میں سلطان باہو کے کلام کا ترجمہ ہوا تو اُسے بھی کراچی جا کر ریڈیو پاکستان کے سنٹر پروڈکشن یونٹ میں جا کر بیدل صاحب نے ہی گایا۔
افضل رحمان صاحب نے بتایا کہ نصرت فتح علی خان کو ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں بیدل صاحب ہی اگلی صف میں لائے۔ وہ بیان کرتے ہیں چونکہ نصرت کے والد فتح علی خان ،نصرت کی کم سِنی میں ہی فوت ہو گئے تھے چناں چہ خاندان والوں نے قوال پارٹی میں پیچھے آوازیں لگانے والوں میں جگہ دی ہوئی تھی۔ ایک طویل عرصہ تقریبا ً پورے پنجاب سے قوال پارٹیاں اپنی باری پر ریڈیو لاہور پر آکے اپنے فن کا مظاہرہ کیا کرتی تھیں۔ اس زمانے میں رات کے 10 بجے ریڈیو سے قوالی نشر کی جاتی۔
عبدالشکور بیدل صاحب چونکہ خود موسیقی کو سمجھتے تھے۔ اس لیے انھوں نے دیکھا کہ یہ لڑکا جو پیچھے تالیاں بجانے اور آوازیں لگانے پر مامور ہے۔ اس کا سُر کلام تو بہت اچھا ہے۔ نصرت صاحب کا خاندان “گڈے والےقوال” کے نام سے معروف تھا۔
اب کی بار جو لائل پور سے گڈے والے قوال آئے تو بیدل صاحب نے کہا کہ یہ جو اچھا لڑکا ہے آپ نے پیچھے بٹھایا ہوتا ہے اسے آگے بٹھائیں۔ قوال پارٹی کے مدار المہام نے کہا کہ یہ ہمارا اپنا معاملہ ہے آپ اس میں مداخلت نہ کریں،مگر بیدل صاحب اپنی بات پر اڑ گئےکہ اگر آپ کی قوالی ریکارڈ ہوگی تو یہ لڑکا آگے بیٹھ کر مرکزی قوال ہوگا نہیں تو قوالی ریکارڈ نہیں ہوگی۔ بات بڑھ گئی تو معاملہ اسٹیشن ڈائریکٹر تک چلا گیا۔ غالباً میاں رشید اختر اسٹیشن ڈائریکٹر تھے انھوں نے عبدالشکور بیدل صاحب کو بلایا اور کہا کہ یہ جیسے کہتے ہیں کردیں۔ ہمیں کیا ہم نے ریکارڈہی تو کرنا ہے۔ باقی یہ جانیں اور ان کا کام۔
بیدل صاحب نے کہا جب نصرت ہی سب سے اچھا فن کا ر ہے تو لیڈ کیوں نہ کرے؟
بیدل صاحب اپنی بات سے نہ ہٹے تو قوال پارٹی بغیر قوالی ریکارڈ کروائے ناراض ہو کے چلی گئی۔ اگلی دفعہ گڈے والے قوال آئے تو طے یہ پایا کہ نصرت کے ساتھ خاندان کا دوسرا لڑکا بھی برابر بیٹھ کر قوالی کرے گا۔ جب قوالی شروع ہوئی تو عبدالشکور بیدل صاحب کی بات درست ثابت ہوئی۔ نصرت فتح علی خان سرگم ،سُر کلام ،ادائیگی ،مُرکیاں پلٹے ہر میدان میں دوسرے لڑکے سے آگے تھے۔ یوں یہ پہلا دن تھا جب نصرت فتح علی خان کا نیا جنم ہوا،پھر وہ ہر آنے والے دن کے ساتھ آگے ہی بڑھتے رہے۔
دنیا میں بہت کم لوگ ایسے خوش قسمت ہوتے ہیں جن کا شوق ان کا پیشہ بنتا ہے۔ ورنہ ہم سے اکثر کو علم ہی نہیں ہوتا کہ ہم نے زندگی میں کرنا کیا ہے؟
بعض اوقات ہماری صلاحیتیں کچھ اور قسم کی ہوتی ہیں۔ لیکن ہم اپنے شوق یا زیادہ پیسے کمانے کے چکر میں اس میدان میں قسمت آزمائی کرتے ہیں جو ہمارا نہیں ہوتا۔ بعض مرتبہ، حالات و واقعات کا دھارا ہمارے حق میں نہیں ہوتا۔
سارے لوگ اچھے گلو کار نہیں بن سکتے ،سب نے سیاست دان نہیں بننا ہوتا۔ سبھی نامور کھلاڑی نہیں بن پاتے۔ مُختصر یہ کہ سب کام سب کے کرنے والے نہیں ہوتے۔ معاشرہ بنتا ہی سب کے مل جُل کر رہنے اور کام کرنے سے بنتا ہے۔ ایک فاسٹ بولر تھےمحمد زاہد، قومی ٹیم کا حصہ بنے۔ کرکٹ کے اپنے پہلے ٹیسٹ میچ میں گیارہ وکٹیں لیں مگر کچھ عرصہ بعد ایک انجری ہوئی اور ہمیشہ کے لیے کرکٹ سے دور ہوگئے۔
ہمارے بس میں صرف کوشش کرنا ہے جو ہمیں بھر پور انداز میں کرنی چاہیے۔ اپنے مقدر اور حالات پر کُڑھنے کی ضرورت نہیں۔ مرے کالج میں ہمارے انگریزی کے استاد سیموئل لعل دین ہمیں انگریزی میں ترجمہ کرنے کے لیے اردو کی کچھ لائنیں لکھوایا کرتے تھے جو بظاہر ترجمہ کرنے کے لیے ہوتی تھیں مگر وہ زندگی کا گہرا فلسفہ ہوتا تھا۔
جیسے”تم جو ہووہی ہو۔ تم وہ ہو ہی نہیں سکتے جو تم ہونا چاہتے ہو۔ تمھیں وہ ہونا بھی نہیں چاہیے جو تم نہیں ہو۔ تمھیں وہ ہونے کی خواہش بھی نہیں کرنی چاہیے جو تم نہیں ہو۔ اور تم وہ ہو بھی نہیں سکتے جو تم نہیں ہو”
میاں محمد بخش نے کیا اعلیٰ بات کی ہے ،
مالی دا کم پانی دینا
بھر بھر مشکاں پاوے
مالک دا کم پھل پھُل لانا
لاوے یا نہ لاوے
اسی بات کو ندا فاضلی نے دوسرے انداز میں کہا ہے اور کیا خوب کہا ہے،
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا