ایک پھٹیچر کہانی 221 ویں بار پھر سن لیجیے۔
ایک چھوٹی سے خستہ حال کشتی کے ملاح کو شیر، بکری اور گھاس کے گٹھے کو دریا پار لے جانا تھا۔ کشتی میں ایک وقت میں ایک ہی شے آ سکتی تھی۔ مسئلہ یہ تھا کہ ملاح پہلے شیر کو لے جاتا ہے تو بکری گھاس کھا جائے گی۔ پہلے گھاس کو لے جاتا ہے تو شیر بکری کو کھا جائے گا۔
چونکہ شیر گھاس نہیں کھاتا لہذا ملاح نے پہلے بکری کو دریا پار کروا کے ایک درخت سے باندھ دیا۔ پھر شیر کو کنارہ پار کروایا مگر بکری کو دوبارہ پہلے کنارے پر لے آیا اور اسے وہیں چھوڑ کے گھاس کا گٹھا دوسرے کنارے تک پہنچایا اور پھر آخری پھیرے میں بکری کو دوسرے کنارے تک لے آیا۔
8 فروری کے نتیجے میں جو نتائج سامنے آئے ہیں ان کو کس طرح سے ایک دوسرے سے ملایا جائے کہ کم ازکم ایک سادہ اکثریت والی چالو سی حکومت تشکیل پا سکے۔ بھلے وہ کتنی ہی ناپائیدار یا مضبوط ہو۔
جس کے پاس سب سے زیادہ سیٹیں ہیں اس کے ساتھ کوئی اور بڑی جماعت بیٹھنے کو تیار نہیں۔ جو جماعت دوسرے نمبر پر آئی ہے اس کے ساتھ پہلے نمبر پر منتخب ہونے والے گروہ کے بیٹھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور جو پارٹی تیسرے نمبر پر آئی ہے وہ پہلے نمبر پر آنے والے اکثریتی گروہ کے ساتھ اتحاد کر کے حکومت بناتی ہے تو پھر اسٹیبلشمنٹ کے غیض و غضب کو دعوت دے گی جس نے بڑی ’محنت‘ سے انتحابات کا مینا بازار سجایا اور بہت سوچ سمجھ کے اس بازار میں اسٹال الاٹ کیے۔
گر تیسرے نمبر کی جماعت دوسرے نمبر کی پارٹی سے اتحاد کرتی ہے تو وہ بوٹی کے بدلے پورا بکرا مانگ رہی ہے۔ بالکل ویسے ہی جس طرح انشورنس کمپنیاں ہائی رسک بیمے کا پریمئیم دوگنا تگنا وصول کرتی ہیں۔
اگرچہ دوسری بڑی پارٹی ( مسلم لیگ ن ) نے تیسری بڑی جماعت ( پیپلز پارٹی ) کو 2 وزراِ اعظمی فارمولا بھی پیش کیا۔ یعنی 3 سال لیگی وزیرِ اعظم اور آخری 2 سال ’پپلی وزیرِ اعظم‘ مگر یہ ایسا فارمولا ہے جسے پی پی پی چھوڑ کوئی بھی ہنستے ہنستے مسترد کر دیتا کیونکہ آج تک کوئی ایسی حکومت نہیں بنی جس نے 5 برس پورے کیے ہوں اور جس حکومت نے 5 برس پورے کیے بھی ہوں تو اس نے کسی ایک وزیرِ اعظم کے ساتھ پورے کیے ہوں۔
مگر آدھا تیتر آدھا بٹیر ہی سہی حکومت بننا بھی ضروری ہے۔ اگر کسی بھی طرح کی حکومت نہیں بن پاتی تو پھر 2 ہی راستے ہیں۔ یا تو نئے انتخابات کروائے جائیں یا پھر مرکز کی موجودہ نگراں حکومت بھی شاخسانہ سلجھنے تک چلتی رہے اور چاروں صوبوں میں جس پارٹی یا اتحاد کو اکثریت حاصل ہے وہ وہاں وہاں اپنی حکومت بنا لے۔
اب آپ کہیں گے کہ نگراں حکومت کیسے چلتی رہے؟ کیونکہ آئین کے مطابق انتخابات ہونے کے بعد نومنتخب قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ عرصے تک ملتوی نہیں کیا جا سکتا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے حتمی نتائج کے نوٹیفکیشن کے اجرا کے بعد نئی اسمبلی کے اجلاس کے لیے الٹی گنتی شروع ہو جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ کوئی سنہ 1970 تو ہے نہیں کہ انتخابی نتائج آنے کے باوجود اسمبلی کا اجلاس طلب نہ کیا جا سکے۔ ( 70 میں کوئی آئین نہیں تھا لہذا وہ جوا کھیل لیا گیا مگر اس جوئے میں کوئی اور نہیں پاکستان ہار گیا)۔
ویسے بھی اگر پنجاب اور خیبر پختونخوا کی نگراں حکومتیں بالائے آئین مدت سے کہیں زیادہ تادمِ تحریر چل سکتی ہیں تو مرکز کی نگراں حکومت اسی دھبڑ دھوس فارمولے کے تحت کیوں نہیں چل سکتی؟
الیکشن کمیشن نے اگر کامیاب امیدواروں کی حتمی فہرستیں جاری کر بھی دی ہیں تو ایک ایسے ماحول میں ان کی کیا حیثیت ہے جہاں نہ صرف نئے الیکشن کے لیے درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر ہیں بلکہ ہائی کورٹس نے بھی کئی حتمی سرکاری نتائج کو عبوری طور پر معطل کر رکھا ہے اور آنے والے دنوں میں جانے اور کتنے نتیجے عدالت میں لٹکنے والے ہیں۔ ایسی صورت میں مخصوص نشستوں کا بٹوارا کس بنیاد پر ہوگا؟ اور بٹوارا ہو بھی گیا تو پھر بھی کیا ضمانت ہے کہ یہ اقدام عدالت میں چیلنج نہیں ہو گا۔
فرض کریں کوئی نہ کوئی راستہ نکال کے یا تگڑم لڑا کے نئی قومی اسمبلی کا اجلاس مقررہ آئینی مدت میں طلب کر لیا جاتا ہے۔ تو پھر قاعدے کے اعتبار سے صدرِ پاکستان پابند ہیں کہ سب سے بڑے اکثریتی بلاک کو حکومت سازی کی دعوت دیں اور اگر وہ بلاک مقررہ مدت کے اندر حکومت تشکیل نہ دے سکے تو اس کے بعد بالترتیب دوسری بڑی جماعت کو حکومت سازی کی دعوت دی جائے۔
یا پھر نئی قومی اسمبلی کی بنیادی آئینی تشکیل کے بعد اگر صدر محسوس کریں کہ قومی اسمبلی میں کوئی گروہ حکومت سازی کے لیے درکار ضرری اکثریت ثابت نہیں کر پا رہا تو قومی اسمبلی کا اگلا اجلاس ہی قابِل عمل صورت نظر آنے تک ملتوی کر دیا جائے۔
مگر پھر آئندہ چند دنوں میں درپیش صدارتی انتخاب الیکٹورل کالج کیسے کرے گا اور انہی دنوں میں سینیٹ کی خالی نشتسیں کیسے پر ہوں گی۔ کسی آئینی خلا کو پر کرنے کی مجبوری میں اگر موجودہ نگراں حکومت کو غیر معمولی طور پر توسیع دینا پڑ گئی تو اس کے لیے عدالت سے رہنمائی لی جائے گی یا کوئی گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہو گا اور جاری ہو گا تو کس ائینی شق کے تحت؟
اس بحران کے نتیجے میں دگرگوں معیشت کی جو مزید درگت بنے گی۔ اس کے بعد مارچ میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف کے موجودہ امدادی پروگرام کی جگہ نئے امدادی پروگرام کے مشکل ترین مذاکرات کیسے مکمل ہوں گے۔ کس کو معلوم کہ آئی ایم ایف اس بار چند بوٹیوں کے عوض کتنے بکرے کھال سیمت مانگے؟
اگر آئی ایم ایف نے نئے پروگرام کے لیے بات چیت کی خاطر یہ پیشگی شرط عائد کردی کہ وہ ایک نئی منتخب حکومت سے مذاکرات کرنا زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔ تو پھر کوئی قابلِ قبول حکومتی شکل واضح ہونے تک روپے کی قدر، مہنگائی، دہشت گردی اور سیاسی ایجی ٹیشن جیسی بلاؤں کو کیسے چمٹنے سے روکا جائے گا۔
اگر فوج کو ایک بار پھر براہ راست آنا پڑے تو اس کا اندرونی اور بین الاقوامی ردِعمل کیا ہوگا؟ اور وہ کون سی قریب ترین آئینی بندرگاہ ہو گی جہاں ریاست کا جہاز بنا تھپیڑے کھائے لنگرانداز ہو سکے۔
میں نے اس مضمون کی ابتدا میں ملاح، شیر، بکری اور گھاس کی جو بجھارتی کہانی سنائی۔ وہ تو ملاح کی عقلِ سلیم سے بخوبی حل ہو گئی۔ مگر ہماری کثیر ملاحی کشتی جس بھنور میں ہے اس کے ہوتے شیر بکری گھاس دوسرے کنارے تک پہنچیں یا بھاڑ میں جائیں میری بلا سے۔ اس سے بھی زیادہ بڑی پریشانی یہ ہے کہ خود کشتی کا کیا ہونے جا رہا ہے؟