نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے 14 اگست 2023 کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا جس کے 4 دنوں کے بعد 16 رکنی وفاقی کابینہ کا انتخاب کیا گیا، کابینہ میں 3 مشیر، 6 معاونین خصوصی جبکہ 7 وفاقی وزراشامل تھے۔
مزید پڑھیں
وزرا کا انتخاب متعلقہ شعبوں سے کیا گیا اور اس وقت تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ بہترین کابینہ کا انتخاب کیا گیا ہے، امید ہے کہ اس کی کارکردگی بھی بہت بہتر ہو گی۔
نگراں حکومت کا قیام تو بنیادی طور پر 10 اگست کے بعد سے آئندہ عام انتخابات تک 3 ماہ کے لیے کیا گیا تھا۔
تاہم مقررہ وقت پر الیکشن کمیشن سیکیورٹی خدشات اور فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث ملک بھر میں عام انتخابات کا انعقاد مقررہ وقت پر نہ ہو سکا اور بعد ازاں سپریم کورٹ کی ہدایت پر الیکشن کمیشن نے 8 فروری کو ملک بھر میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا جس پر عمل بھی کیا گیا۔
عام انتخابات کے انعقاد میں تاخیر سے نگراں حکومت کو 3 ماہ کے بجائے 6 ماہ سے زیادہ کا وقت مل گیا، اس دوران نگراں حکومت نے بہت سے اہم کام بھی سرانجام دیے۔
ان اہم کاموں میں عام انتخابات کے دوران ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنا، عام انتخابات کے لیے فنڈز جاری کرنا، آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد 70 ارب ڈالر کی قسط کی وصولی، اسمگلنگ کی روک تھام، غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے انخلا سمیت دیگر اہم کام سر انجام دیے۔
9 مئی کے واقعات ملوث افراد کو سزائیں نہ مل سکیں
نگراں حکومت 6 ماہ کا وقت ملنے کے باوجود بہت سے اہم کام نہ کر سکی، 9 مئی واقعے میں ملوث افراد کو سزائیں دلوانے اور ماسٹر مائنڈ کا تعین کرنے کے لیے کمیٹی تو قائم کی گئی لیکن اس سے آگے کچھ نہ ہو سکا، پی آئی اے سمیت دیگر اداروں کی نجکاری کا فیصلہ تو کیا گیا لیکن عملدرآمد نہ ہو سکا۔
نگراں حکومت ڈالر کی قیمت کنٹرول کرنے میں کامیاب رہی
نگراں حکومت ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر کامیاب رہی جبکہ پیٹرول کی قیمتوں میں بھی عوام کو ریلیف دیا گیا، اسٹاک ایکسچینج نے گزشتہ سال دسمبر میں تاریخ کی بلند ترین سطح 67 ہزار کو عبور کیا۔
آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی سخت شرائط کے باعث بجلی اور گیس کے بلوں میں ہوشربا اضافہ کیا گیا جس سے عوام کی معاشی مشکلات میں انتہائی اضافہ ہوا اور ملک بھر میں احتجاج کیا گیا۔
نگراں کابینہ میں شامل وزراء کے آنے سے بھی وزارتوں کی کارکردگی میں کچھ بہتری آئی
نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر
پاکستان اس وقت تاریخ کے مشکل معاشی دور سے گزر رہا ہے، نگراں حکومت کے قیام کے وقت بھی ڈیفالٹ کا خطرہ منڈلا رہا تھا، آئی ایم ایف اود دوست ممالک سے ملنے والی امداد سے پاکستان میں کافی حد تک معاشی استحکام آیا۔
ڈاکٹر شمشاد اختر نے آئی ایم ایف وفد کے ساتھ ملاقاتیں کیں جس کے بعد رواں سال 16 جنوری کو آئی ایم ایف نے پاکستان کو 70 کروڑ ڈالر قرض کی ایک اور قسط کی ادائیگی کی۔
اس کے علاوہ ڈاکٹر شمشاد اختر ایف بی آر اصلاحات کے لیے بھی کافی سرگرم نظر آئیں تاہم ان اصلاحات کا عمل مکمل نہ ہو سکا۔
نگراں حکومت نے گزشتہ پی ڈی ایم حکومت کی نسبت کم قرضے لیے، مجموعی طور پر 3 ارب 90 کروڑ ڈالر کا بیرونی قرضہ لیا جس میں سے 360 ارب ڈالر قرض کی واپسی میں ادا کیا گیا، جبکہ پی ڈی ایم دور حکومت میں 8 ارب 40 کروڑ ڈالر کا بیرونی قرض لیا گیا جبکہ 5 ارب 40 کروڑ ڈالر قرض کے مد میں واپس کیے گئے۔
نگراں دور حکومت میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر 330 سے کم ہو کر 280 روپے تک آ گیا، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی بڑی کمی کی گئی، دوسری جانب نگراں دور حکومت میں شرح سود 22 فیصد پر برقرار رہی لیکن اس پر مزید کمی نہ ہو سکی۔
نگراں حکومت نے 2 مرتبہ گیس اور متعدد بار بجلی کی قیمتوں میں بڑا اضافہ کیا جس سے عوام کی معاشی مشکلات مزید بڑھ گئیں۔
نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی
پاکستان کو افغان بارڈر پر سرحد کے غیر محفوظ ہونے سے بہت سی معاشی اور سیکیورٹی مشکلات کا سامنا رہتا ہے، آئے روز دہشتگردی کے بڑھتے واقعات کے کچھ تانے بانے افغانستان سے جا ملتے ہیں اور افغانیوں کی ایک بڑی تعداد جبکہ ڈالر اور مختلف اجناس کی اسمگلنگ کے باعث پاکستان میں اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول رکھنا انتہائی مشکل ہو گیا تھا۔
نگراں حکومت نے نومبر سے غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم غیر ملکیوں بالخصوص افغانیوں کے انخلا کے لیے آپریشن کا آغاز کیا اور اس کے نتیجے میں اب تک 4 لاکھ 96 ہزار سے زیادہ افغانی واپس جا چکے ہیں۔
اس کے علاوہ افغانستان اسمگل ہونے والی اشیاء خورونوش، اجناس اور ڈالر پر بھی سختی کی گئی ہے جس کے باعث ملک بھر میں ڈالر، گندم، چینی سمیت مختلف اشیاء کی قیمتوں میں استحکام رہا۔
نگراں حکومت کے دور میں ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے، عام انتخابات سے قبل بھی بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے متعدد واقعات ہوتے رہے ہیں، مختلف سیاسی ریلیوں اور الیکشن آفس کے قریب دھماکہ و حملے ہوتے رہے تاہم اس کے باوجود نگراں وزارت داخلہ کی جانب سے فراہم کی گئی سیکیورٹی کے باعث ملک بھر میں عام انتخابات کا پرامن انعقاد ممکن ہوا۔
وزارت انفارمیشن، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی
نگراں وزیر برائے آئی ٹی، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی عمر سیف کے دور میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی میں تو کچھ اصلاحات ہو سکیں تاہم وزارت سائنس وٹیکنالوجی میں کچھ کام نہ ہو سکا، وزارت سیکرٹری، ایڈیشنل سیکرٹری سمیت 10 بڑے اہم اداروں کے سربراہان کی تعیناتی بھی نہ کی جا سکی۔
نگراں وزیر عمر سیف نے ملک کے پہلے ای روزگار سینٹر کا افتتاح کیا جس میں فری لانسرز کے لیے تمام سہولیات سے آراستہ 100 ورک سٹیشن ہیں۔
اس کے علاوہ عمر سیف کا کہنا ہےکہ حکومت چین کے ساتھ معاہدہ کر رہی ہے جس کے تحت چین اب پاکستان کے ذریعے اپنی انٹرنیٹ ٹریفک کو روٹ کرنا شروع کرے گا، اس سے پاکستان کو انٹرنیٹ ٹرانزٹ ٹریفک کی مد میں سالانہ 40 کروڑ ڈالر آمدن ہو سکے گی۔
نگراں وزیر آئی ٹی عمر سیف کی قیادت میں وزارت نے پاکستان میں 5G سروس کے آغاز کے لیے کافی کام کیا ہے، 300 میگا ہرٹز سپکٹرم کی نیلامی کے لیے قائم کی گئی آکشن ایڈوائزری کمیٹی نے پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کو بین الاقوامی کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کرنے کی ہدایات کر دی ہیں، کنسلٹنٹ 3 سے 4 ماہ میں اپنی رپورٹ جمع کرائے گا جس کی روشنی میں پی ٹی اے سپکٹرم کی نیلامی کرائے گا اور 2025 تک پاکستان میں 5G سروس کاآغاز ہو سکے گا۔
نگراں وزیر مذہبی امور انیق احمد
نگراں وزیر مذہبی امور انیق احمد کی قیادت میں وزارت نے پہلی مرتبہ 40 دنوں سے کم 20 سے 22 دنوں کے حج پیکج کا بھی اعلان کیا ہے، حج پیکج گزشتہ سال کی نسبت 1 لاکھ روپے سستا کیا گیا، اس کے علاوہ عازمین کی سہولت کے لیے اٹیچی بھی وزارت عازمین کو دے گی اس اٹیچی پر بار کوڈ یا کیو آر کوڈ ہو گا جس سے سامان کے کھونے کا خدشہ کم ہو جائے گا، اس کے علاوہ درخواستیں بھی بہت جلدی وصول کی گئی ہیں۔
نگراں دور میں وزارت میں چیئرمین متروکہ املاک بورڈ کی تعیناتی نہیں ہو سکی، 2 مرتبہ انٹرویو کی تاریخ رکھ کر منسوخ کر دی گئی۔
گزشتہ سال اگست میں نگراں کابینہ کی تشکیل کے 2 دنوں بعد ہی سانحہِ جڑانوالہ پیش آیا کہ جہاں مسیحی آبادی پر ایک گروہ نے حملہ کیا اور جلاؤ گھیراؤ کے بعد چرچ پر بھی حملہ کیا گیا۔
اس موقع پر نگراں وزیر مذہبی امور انیق احمد نے بین المذہب ہم آہنگی کانفرنس کا انعقاد کرایا، اس کانفرنس میں ملک بھر سے تمام مذاہب کے نمائندے ایک میز پر بیٹھے اور واقعے کی مذمّت کی اور مسیحی برادری کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔اس کانفرنس کو مسیحی برادری سمیت دیگر اقلیتوں نے بہت سراہا۔
نگراں وزیر نجکاری فواد حسن فواد
نگراں وزیر نجکاری فواد حسن فواد کو نگراں کابینہ کی تشکیل کے پہلے مرحلے میں نہیں بلکہ دوسرے مرحلے میں شامل کیا گیا، پی آئی اے سمیت دیگر اداروں کی نجکاری پر بہت تیزی سے کام کی ضرورت تھی۔
ذرائع کے مطابق فواد حسن فواد کی قیادت میں وزارت نے پی آئی اے کی نجکاری کی تمام کاغذی کارروائی مکمل کر لی ہے اور آئندہ حکومت کے آتے ہی نجکاری کا اعلان ہو سکے گا۔
جبکہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پہلے متعدد ڈیپارٹمنٹس کی نجکاری کی جائے گی، پی آئی اے کے اثاثوں اور نجکاری کا تخمینہ لگانے کے لیے فائننشل ایکسپرٹ کی خدمات بھی حاصل کر لی گئی ہیں۔
نگراں وزیر منصوبہ بندی محمد سمی سعید
وزارت منصوبہ بندی نے نگراں دور میں سی پیک کے منصوبے پر کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا، سی پیک کا دوسرا فیز سست روی سے آگے بڑھ رہا ہے، اس کے علاوہ پرائس مانیٹرنگ کمیٹی بھی وزارت منصوبہ بندی کے ماتحت ہے تاہم اس دور میں مہنگائی میں کمی اور اشیاء کی قیمتوں پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں دیکھا گیا۔
وزارتِ منصوبہ بندی کی تمام تر توجہ وفاقی ترقیاتی پروگرامز پر مرکوز رہی اور نگراں دور میں 508 ارب روپوں کے منصوبوں کی منظوری دی تاہم اس دوران محض 20 فیصد رقم 190 ارب کی رقم خرچ کی گئی۔
7 ماہ کے دوران ترقیاتی منصوبوں کے لیے بیرونی امداد کے ذریعے 42 ارب88 کروڑ روپے موصول ہوئےچکے ہیں، مجموعی ترقیاتی پروگرام کے بجٹ کے لحاظ سے 7 ماہ کے دوران ترقیاتی منصوبوں پر محض 20فیصد رقم خرچ کی گئی ہے۔
وفاقی وزارتوں کی ترقیاتی اسکیموں کے لیے 372ارب20کروڑ کی منظوری دی اور 161ارب65کروڑ روپے خرچ ہوئے، این ایچ اے کے لیے 93 ارب90کروڑر وپے کی منظوری دی گئی اور21ارب38کروڑر وپے خرچ کیے جاسکے۔
این ٹی ڈی سی اور پیپکو کے لیے 33ارب16کروڑ روپے کی منظوری دی گئی اور 7ارب روپے خرچ کیے گئے۔