اس بار پی ایس ایل کچھ مدھم سا نہیں؟

جمعرات 7 مارچ 2024
author image

حماد شاہ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یوں تو ہر کرکٹ کھیلنے والے بڑے ملک کی اپنی لیگ ہے اور وہ لیگ اُس ملک کے کرکٹ شائقین کو بے حد پسند ہے تاہم پی ایس ایل سے پاکستانی شہریوں کی محبت کسی اور وجہ سے ہے۔ جب پی ایس ایل نے جنم نہیں لیا تھا تو انڈین پریمیئر لیگ یعنی آئی پی ایل کو دیکھ دیکھ کر ہم ٹھنڈی آہیں بھرتے تھے کہ کاش! ہماری بھی کوئی ایسی لیگ ہوتی۔ پھر 2016 میں پی ایس ایل کا آغاز ہوا تو ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے ہماری دعائیں سن لی گئی ہیں۔

جہاں پی ایس ایل کی بدولت قومی کرکٹ ٹیم کو کئی نئے کھلاڑی ملے وہیں اس کے شروع ہونے سے لے کر پچھلے سال تک اس لیگ کو صرف اور صرف عوام سے پیار ہی ملا ہے تاہم اس مرتبہ حالات تھوڑے تبدیل لگ رہے ہیں۔

ایک تو اس سیزن کا آغاز ایسے وقت پر ہوا جب ملک کے سیاسی حالات خاصے کشیدہ تھے اور عام انتخابات کو بھی ایک ہفتہ ہی گزرا تھا۔ عام انتخابات میں دھاندلی کی روایتی گونج ملک بھر میں سنائی دے رہی تھی اور پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر بھرپور مہم چلائی ہوئی تھی۔ اس دوران پی ایس ایل کےرواں سیزن کا آغاز ہونا اس قدر اچھا ثابت نہیں ہوسکا۔

پی ایس ایل کے آغاز کے دنوں میں عوام کی توجہ کا مرکز نیوز چینل، سیاست اور خبریں ہی تھے۔ اس وجہ سے پی ایس ایل کے لیے وہ جوش و خروش دیکھنے میں نہیں آیا جو ہر سال نظر آتا ہے۔ مطلب آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ انتخابات کے بعد کی سیاسی صورتحال نے کرکٹ کو ہائی جیک کیا ہوا تھا۔

پی سی ایل کے پہلے دن میں نے ٹوئٹر پر کچھ ٹویٹس دیکھی تھیں جس میں پی ٹی آئی کے حامی اکاؤنٹس عوام کو پی ایس ایل مقابلے نہ دیکھنے کا مشورہ دے رہے تھے کیونکہ سابق نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کو نیا چیئرمین پی سی بی لگایا گیا تھا۔
پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا طاقت تمام سیاسی جماعتوں میں سب سے زیادہ ہے اور اُن کا کوئی بھی اعلان عام آدمی تک بہت جلدی پہنچتا ہے، اس وجہ سے محسن نقوی کا چیئرمین پی سی بی بننا پی ایس ایل کے بائیکاٹ کی ابتدائی وجہ بھی ثابت ہوئی۔

پی ایس ایل تو جیسے تیسے شروع ہوگیا اور میچ معمول کے مطابق دلچسپی سے بھرپور ہونے لگ پڑے تاہم اس خوبصورت ٹورنامنٹ کے لیے بری خبر پہلے دن ہی سامنے آگئی جب پی ایس ایل نے اس سیزن کے لیے فاسٹ فوڈ برینڈ کے ایف سی کے ساتھ شراکت کا اعلان کیا۔ کے ایف سی ان گلوبل برانڈز میں سے ایک ہے جن کے خلاف عالمی سطح پر بائیکاٹ کا سلسلہ جاری ہے اور یہ بائیکاٹ فلسطین پر اسرائیل کے مظالم اور قبضے کے خلاف کیا جا رہا ہے۔

یوں تو ایسی درجنوں پراڈکٹس ہیں جن کا تعلق اسرائیل سے ہے تاہم کے ایف سی کا شمار اُن پراڈکٹس میں ہوتا ہے جن کے خلاف سخت بائیکاٹ کی بھرپور آن لائن مہم چل رہی ہے۔ کے ایف سی کے ساتھ الحاق کے بعد سوشل میڈیا پر پہلے سے ہی سلگتی ہوئی پی ایس ایل بائیکاٹ کی چنگاری بڑی آگ میں تبدیل ہوگئی اور عوام کی بڑی تعداد نے پی ایس ایل کو دیکھنے اور سپورٹ کرنے کے خلاف بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔

اس بائیکاٹ مہم میں ایسے بہت سے لوگ شامل ہیں جو کرکٹ کے دلدادہ ہیں تاہم فلسطین سے محبت اور اسرائیل کے خلاف بطور احتجاج اس سیزن سے کنارہ کشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس مرتبہ میں نے خود محسوس کیا ہے کہ عوام میں پی ایس ایل کا شوق ویسا نہیں ہے جیسے پہلے ہوتا تھا۔ آپ کہیں بھی جائیں، لوگوں کے گفتگو کے زیادہ موضوع سیاست اور ملکی مسائل ہی ہوں گے۔ کرکٹ پر بات کرنے والے آپ کو شاید ہی کہیں ملیں۔

پی ایس ایل ایک کرکٹ برانڈ ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارا مان اور فخر ہے لیکن مجھے لگتا ہے پی سی بی سے ایک بڑی غلطی ہوگئی ہے۔ چلو ایک بات تو سمجھ آتی ہے کہ آئی پی ایل کی ونڈو سے ٹکراؤ کی وجہ سے پی ایس ایل کی تاریخیں آگے نہیں بڑھائی جا سکتی تھیں اور پھر انٹرنیشنل کرکٹ کے شیڈول اور دیگر ٹی ٹوئنٹی لیگز کی وجہ سے اکتوبر نومبر یا دسمبر کی ونڈو میں بھی نہیں ڈالا جا سکتا تھا تاہم پی سی بی کے ایف سی سے الحاق کی کوئی وجہ بظاہر نظر نہیں آتی۔
میں اس بات کو مانتا ہوں کہ کچھ چیزیں پی سی بی کے ہاتھ میں نہیں تھیں جس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے لیکن یہ کے ایف سی والا معاملہ سراسر پی سی بی کی غلطی ہے۔ ایسے کئی فوڈ برانڈ موجود ہیں جن کے ساتھ پاکستان کرکٹ بورڈ اس ٹورنامنٹ کے لیے الحاق کر سکتا تھا۔ کے ایف سی کے ساتھ پی سی بی کو مالی فائدہ تو ضرور ہوگا لیکن عوامی سطح پر جو غم و غصہ ہے وہ بالکل بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اگر بائیکاٹ مہم 30 فیصد ہے تو اُس میں اس وقت 25 فیصد شرح کے ایف سی اور 5 فیصد شرح محسن نقوی کے باعث ہے۔ پی ایس ایل کے مارکیٹنگ تھنک ٹینک سے بڑی سنگین غلطی ہوئی ہے جس کی وجہ سے غیر ضروری طور پر عوام کی ایک بڑی تعداد اس ہردلعزیز ٹورنامنٹ سے منہ موڑ چکی ہے۔ اس تمام صورتحال کے باعث اس سال کا پی ایس ایل ٹورنامنٹ تھوڑا بجھا اور مدھم سا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سافٹ ویئر انجینئرنگ میں ڈگری کرنے کے بعد اس وقت فری لانسنگ اور کانٹینٹ پروڈیوسر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ کرکٹ کا جنون کی حد تک شوق ہے اور باقی مانندہ وقت نیٹ فلکس پر بِتاتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

امریکی صدر ٹرمپ کا بی بی سی کے خلاف 5 ارب ڈالر تک ہرجانے کا مقدمہ دائر کرنے کا اعلان

ہم نے اوور ورکنگ کو معمول بنا لیا، 8 گھنٹے کا کام کافی: دیپیکا پڈوکون

27ویں آئینی ترمیم کیخلاف احتجاجاً لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا بھی مستعفی

عالمی جریدوں نے تسلیم کیا کہ عمران خان اہم فیصلے توہمات کی بنیاد پر کرتے تھے، عطا تارڑ

جازان میں بین الاقوامی کانفرنس LabTech 2025، سائنس اور لیبارٹری ٹیکنالوجی کی دنیا کا مرکز بنے گی

ویڈیو

گیدرنگ: جہاں آرٹ، خوشبو اور ذائقہ ایک ساتھ سانس لیتے ہیں

نکاح کے بعد نادرا کو معلومات کی فراہمی شہریوں کی ذمہ داری ہے یا سرکار کی؟

’سیف اینڈ سیکیور اسلام آباد‘ منصوبہ، اب ہر گھر اور گاڑی کی نگرانی ہوگی

کالم / تجزیہ

افغان طالبان، ان کے تضادات اور پیچیدگیاں

شکریہ سری لنکا!

پاکستان کے پہلے صدر جو ڈکٹیٹر بننے کی خواہش لیے جلاوطن ہوئے