پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز (پی پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری پاکستان کے 14 ویں صدر منتخب ہو گئے ہیں، جس کے بعد چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان سے عہدے کا حلف بھی لے لیا۔
آصف زرداری کو مفاہمت کا بادشاہ کہا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عام انتخابات میں کم نشستیں حاصل کرنے کے باوجود وہ قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں سے مجموعی طور پر 411 الیکٹورل ووٹ حاصل کرکے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ اس وقت ملک میں سیاسی عدم استحکام عروج پر ہے، ایک بڑی او ملک بھر میں مقبول جماعت کے بانی چیئرمین و سابق وزیراعظم عمران خان جیل میں قید ہیں جبکہ خواتین رہنماؤں سمیت متعدد سیاسی رہنما بھی پابند سلاسل ہیں۔
مزید پڑھیں
وی نیوز نے مختلف تجزیہ کاروں سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی کہ کیا صدر آصف علی زرداری اپنی مفاہمتی پالیسی سے ملک کو درپیش سیاسی عدم استحکام سے چھٹکارا دلا پائیں گے؟
توقع ہے آصف زرداری مفاہمت کا دروازہ وسیع کریں گے، مجیب الرحمٰن شامی
سینیئر تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری کا صدر منتخب ہونا پاکستان میں جمہوریت کو فروغ دے گا، یہ بہت اچھا ہوا ہے کہ متعدد جماعتوں نے ایک امیدوار پر اتفاق کر کے اس کو بھاری ووٹوں کے ساتھ صدر منتخب کیا ہے، پاکستان کی سیاست میں آصف زرداری کو مفاہمت کا بادشاہ مانا جاتاہے، توقع ہے کہ وہ مفاہمت کا دروازہ وسیع کریں گے۔
انہوں نے کہاکہ عمران خان اور پی ٹی آئی کو بھی اس مفاہمتی دروازے کا فائدہ مل سکتا ہے، آصف زرداری کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ سب کو ایک ساتھ لے کر چل سکتے ہیں۔ ’میرے خیال میں آصف زرداری کے صدر بننے سے ملک میں بہت جلد سیاسی استحکام آئے گا‘۔
مجیب الرحمٰن شامی نے کہاکہ آصف زرداری نے اپنے گزشتہ صدارتی دور میں صدارتی اختیارات سے دستبرداری اختیار کی اور اپنی کوششوں سے 18ویں ترمیم منظور کرائی جبکہ صدر کے اختیارات وزیراعظم اور پارلیمنٹ کو واپس کر دیے۔
’آصف زرداری تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندہ ہوں گے‘
انہوں نے کہاکہ اس وقت پیپلزپارٹی کا حکومت سازی میں بنیادی کردار ہے، توقع ہے کہ آصف زرداری ملک کو باآسانی چلائیں گے۔ آصف زرداری کے پاس عارف علوی سے کئی گنا زیادہ تجربہ ہے۔ وہ تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندہ ہوں گے اور کسی پارلیمانی یا سیاسی کام میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔
مجیب الرحمٰن شامی نے مزید کہاکہ اس وقت پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان پیدا ہونے والا فاصلہ کم کرنے کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت کہہ چکے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز ایک ساتھ بیٹھیں اور پاکستان کے جمہوری مستقبل کو مضبوط کریں۔
انہوں نے کہاکہ وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو تسلیم کریں۔ عمران خان کی شکایات کو حکومتی سطح پر سنتے ہوئے ان کا ازالہ کیا جائے جبکہ سیاسی رہنماؤں کی رہائی ممکن بنائی جائے۔
آصف زرداری کے صدر منتخب ہونے سے پارلیمان کو بہت فائدہ ہوگا، سہیل وڑائچ
سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہاکہ آصف زرداری پاکستان کے واحد صدر ہیں کہ جن کے پاس پہلے سے 5 سالہ صدارتی تجربہ ہے، اور اس سے بڑھ کر ان کا سیاسی تجربہ اور مفاہمتی رویہ ایسا ہے کہ شاید ہی کسی اور سیاستدان میں ہو، ان کے صدر منتخب ہونے سے پارلیمان کو بہت فائدہ ہو گا اور قانون سازی میں آسانی ہوگی۔ ’آصف زرداری نے پارلیمنٹ کو خود مضبوط کیا ہے اور وہ اس کو مزید مضبوط کرنے پر یقین رکھتے ہیں‘۔
’صدر زرداری سے یہ خطرہ نہیں ہوگا کہ وہ اسمبلی توڑ دیں گے‘
سہیل وڑائچ نے کہاکہ صدر آصف زرداری سے اس بات کا بھی کوئی خدشہ نہیں ہو گا کہ وہ کسی اسمبلی کو بلا وجہ توڑنے کی ایڈوائس کو منظور کر لیں گے، یا وہ کسی ایک جج کے خلاف صدارتی ریفرنس پاس کر دیں گے۔ آصف زرداری نے جیل بھی دیکھی ہے، مشکلات بھی دیکھی ہیں، ان کا تعلق چھوٹے صوبے سے ہے اور وہ اس کے مسائل سے بخوبی واقف ہیں، ان کو اس کی محرومیوں کا احساس بھی ہے۔
سینیئر تجزیہ کار نے کہاکہ آصف زرداری کے صدر بننے میں بلوچستان اسمبلی نے بھی بھرپور کردار ادا کیا ہے، وہ بلوچستان کے مسئلے پر بھرپور توجہ دیں گے، وہ کوشش کریں گے کہ جو لوگ پہاڑوں پر چلے گئے ہیں ان کو نیچے لایا جا سکے، ان کو بھی سیاسی نظام میں شامل کیا جا سکے تاکہ بلوچستان اور ملک میں امن قائم ہو سکے۔
آصف زرداری علامتی صدر ثابت نہیں ہوں گے، محمد مالک
سینیئر تجزیہ کار محمد مالک کے مطابق آصف زرداری ایک علامتی صدر ثابت نہیں ہوں گے، ان کی پارٹی اور ان کی جو پوزیشن ہے کچھ بھی آصف زرداری یا پیپلز پارٹی کے بغیر نہیں ہو سکتا، اس وقت پاکستان کو میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت کی ضرورت ہے، لیکن اس کے لیے سیاسی رہنماؤں کے علاوہ دیگر طاقتوں کو بھی لچک کا مظاہرہ کرنا ہو گا، ’جو اس وقت ماحول ہے مجھے لگ رہاہے کہ عمران خان کے لیے اور سختی ہوگی‘۔
محمد مالک نے کہاکہ آصف زرداری کے لیے سب سے بڑا مشن عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیانی فاصلے کو کم کرناہے، اس وقت عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کے لیے کوئی نیوٹرل جگہ نہیں ہے، مگر اب ایوان صدر وہ جگہ ثابت ہو سکتی ہے۔