سائنسدان ایک ایسا چھوٹا سا آلہ تیار کر رہے ہیں جو ایک ’برا‘ کے اندر فٹ ہوسکتا ہے جو ہزاروں زندگیاں بچا سکتا ہے۔ امید ہے کہ یہ ڈیوائس مستقبل میں ٹیومر کی نشوونما کی نگرانی کرکے مریضوں کی زندگیاں بچانے میں مدد دے سکتی ہے۔ ڈیوائس اس بات کی نگرانی کرے گی کہ چھاتی کے سرطان کا ٹیومر بڑھ رہا ہے یا نہیں۔
ناٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی (این ٹی یو) کی میڈیکل ٹیکنالوجیز انوویشن فیسیلیٹی کی ایک ٹیم ایسی ٹیکنالوجی تیار کرنے پر کام کر رہی ہے جو برقی کرنٹ کی ایک شکل کا استعمال کرے گی جو خلیوں کے اندر اور باہر سیال میں ہونے والی چھوٹی تبدیلیوں کو اسکین اور شناخت کرسکتی ہے۔ ٹیومر ٹشو صحت مند ٹشو کے مقابلے میں زیادہ گھنا ہوتا ہے اور اس میں پانی کم ہوتا ہے ، لہذا یہ آلہ ٹیومر کی تبدیلیوں اور نشوونما کی 2 ملی میٹر تک پیمائش کرنے کے قابل ہوگا۔
مزید پڑھیں
محققین کا کہنا ہے کہ اسے مریض کی ’برا‘ میں رکھ کر استعمال کیا جاسکتا ہے یا ممکنہ طور پر ڈیوائس کو شامل کرتے ہوئے ایک نئی برا کے طور پر تیار کیا جاسکتا ہے۔ جسے علاج اور باقاعدہ جانچ پڑتال اور اسکین کے لیے استعمال کیا جائے گا، ڈیٹا ریکارڈ کیا جائے گا اور اسمارٹ فون کے ذریعے مریض اور معالج کو بھیجا جائے گا تاکہ ٹیومر کی بڑھوتری کا اندازا لگایا جاسکے۔
محققین کو امید ہے کہ اس سے بہت سے دوسرے امراض کی تشخیص کی ضرورت کو کم کرنے اور پیسے بچانے میں مدد مل سکتی ہے۔ ٹیومر کی نگرانی اس لیے اہم ہے کیونکہ ٹیومر کی نشوونما مختلف مریضوں میں نمایاں طور پر مختلف ہوسکتی ہے اور خاص طور پر 1 سینٹی میٹر سے کم کی درست نگرانی کرنا بہت مشکل ہے۔
این ٹی یو میں الیکٹرانک ٹیکسٹائل اور الیکٹرانک انجینئرنگ کے ماہر ڈاکٹر یانگ وی نے کہا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی چھاتی کے ٹشوز میں تبدیلیوں کی پیمائش کرے گی اور مریض کے زندہ رہنے کے امکانات کو بہتر بنانے میں مدد کرے گی۔ چھاتی کا سرطان اتنی تیزی سے بڑھ سکتا ہے کہ یہ 6 ماہ میں ایک ملی میٹر یا 6 ہفتوں میں 2 ملی میٹر ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر یانگ وی نے کہا کہ ہم چھاتی کے سرطان کی ایک متبادل تشخیص کی تحقیقات کے دروازے کھول رہے ہیں جو مریض کے گھر میں آرام سے کیا جا سکتا ہے، اسپتال کے ضروری وسائل کو محفوظ کر سکتا ہے جبکہ کینسر کی ابتدائی علامات کا پتا لگانے کے لیے ایک قابل عمل حل فراہم کر رہا ہے۔
بریسٹ کینسر ناؤ کے ڈائریکٹر ریسرچ، سپورٹ اینڈ انفلوئنس ڈاکٹر سائمن ونسینٹ کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں ہر سال 55 ہزار سے زائد افراد میں چھاتی کے سرطان کی تشخیص ہوتی ہے اور 11 ہزار افراد اس بیماری کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، اس حوالے سے تحقیق کی اشد ضرورت ہے کہ ہم چھاتی کے سرطان کی بہتر تشخیص اور علاج کیسے کر سکتے ہیں۔