کیا دانت لگوانا کینسر کا باعث بن سکتا ہے؟

پیر 11 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آج کل باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی دانتوں کا علاج بہت مہنگا ہوچکا ہے مگر یہاں ترقی یافتہ دنیا کی طرح حفظان صحت کے اصولوں کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔ جو کہ بہت سی دیگر بیماریوں کا سبب بن رہا ہے۔

راولپنڈی کے ہر محلے میں ایک دانتوں کا ماہر اپنی دکان کھولے بیٹھا ہے اور وہاں ہونے والے ناقص علاج کی بنا پر اسے کلینک کہنا بالکل درست نہیں ہے۔ گلی اور محلے تو دور کی بات راولپنڈی میں پھیری والے بھی محض چند روپوں کے عوض دانت پالش اور نقلی دانت لگانے کی بولیاں لگارہے ہیں۔ یہ افراد سڑکوں اور گلیوں میں سائیکلوں اور موٹر بائیکس پر گھومتے اور یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ’دانت صاف کروا لو، دانت چمکا لو‘۔

مزے کی بات یہ ہے کہ 21ویں صدی کے باوجود پاکستان بہت سے معاملات میں آج بھی 90 کی دہائی میں کھڑا ہوا ہے، لیکن پھر بھی ادارہ صحت کے حکام اس پر کوئی ایکشن نہیں لیتے۔

اطائی ڈاکٹر سے دانت لگوانے والا جوان منہ کے کینسر میں مبتلا

28 برس کے محمد وحید اصغر کے 2 بچے ہیں اور ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے۔ محمد وحید نے وی نیوز کو بتایا کہ تقریباً 1 برس پہلے انہوں نے اپنا ایک دانت راولپنڈی کے کلینک سے لگوایا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ چونکہ ان کی ماہانہ آمدن 50 ہزار روپے تھی اس لیے ان کے لیے کسی اچھے دانتوں کے ماہر ڈاکٹر کے پاس جانا ناممکن تھا۔ انہیں اس حوالے سے اتنا علم بھی نہیں تھا کہ دانتوں کی وجہ سے اتنی بڑی بیماری ہوسکتی ہے، یا پھر اچھے اور بُرے ڈاکٹر کی پہچان کیسے کی جاسکتی ہے۔

’دانت میں انفیکشن کی وجہ سے میرے منہ میں اکثر درد رہتا تھا، ڈاکٹر نے مجھ سے کہا کہ آپ کا یہ انفیکشن دوسرے دانتوں میں بھی پھیل سکتا ہے اس لیے آپ یہ دانت نکلوا دیں، اور اس کے بدلے آپ کو میں سستے میں نیا دانت لگا دوں گا، اور پتا بھی نہیں چلے گا کہ یہ نقلی دانت ہے اور نا ہی آپ کو کچھ کھانے پینے میں مسئلہ پیش آئے گا‘۔

ڈاکٹر نے کہا دانت چند روز تک ایڈجسٹ ہوجائے گا، کینسر میں مبتلا وحید اصغر

ایک سوال کے جواب میں وحید اصغر نے بتایا کہ ’ڈاکٹر نے دانت لگایا اور مجھے کہا کہ چند دن تک یہ ایڈجسٹ ہوجائے گا۔ اس کے بعد واقعی دانت ایڈجسٹ ہوگیا اور سب نارمل چل رہا تھا جبکہ کھانے پینے میں کسی قسم کا مسئلہ بھی نہیں آیا لیکن دانت لگوانے کے تقریباً 6 ماہ بعد مجھے ہلکا درد شروع ہوا جسے میں نے شروعات میں اتنا سنجیدہ نہیں لیا۔ مگر آہستہ آہستہ میں نے محسوس کیا کہ درد بڑھتا جا رہا تھا۔ بعض اوقات درد کی دوا لے لیا کرتا تھا اور وقتی طور پر مجھے ریلیف مل جاتا تھا‘۔

کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے والا وحید اصغر

انہوں نے مزید مزید بتایا کہ ’چند ماہ مزید گزرنے کے بعد میں نے محسوس کرنا شروع کیا کہ اس دانت سے خون آ رہا ہے۔ چونکہ تنخواہ اتنی نہیں تھی کہ فوراً علاج کے لیے چلا جاتا، اوپر سے مہنگائی نے بُرا حال کیا ہوا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ میں آخری وقت تک خود ہی کوشش کرتا رہا کہ کسی طرح آرام آ جائے مگر ایسا نہ ہوسکا‘۔

’جب اچھے ڈاکٹر کے پاس گیا تو معلوم ہوا کے منہ کے کینسر میں مبتلا ہوچکا ہوں‘

وحید اصغر نے کہا کہ ’اس کے بعد مسئلہ بڑھتا جارہا تھا، ان ہی دنوں میری ایک کمیٹی نکلی اور کچھ پیسے اکٹھے مل گئے تو میں ایک اچھے ڈاکٹر کے پاس چلا گیا جس نے سب سے پہلے میرا دانت نکالا تو معلوم ہوا کہ دانت کی جگہ پر ایک زخم بن چکا ہے۔ ڈاکٹر نے کچھ ضروری ٹیسٹ کروائے اور بتایا کہ آپ کو منہ کا کینسر ہوچکا ہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب میں زندگی میں پہلی بار بہت رویا، کیونکہ صرف پیسوں کی خاطر میں ایک ایسے ڈاکٹر کے پاس چلا گیا تھا جس کی وجہ سے آج میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہوں اور میرے بچے ابھی بہت چھوٹے ہیں‘۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر نے استفسار کرنے پر بتایا کہ ’جس شخص نے آپ کا دانت لگایا پہلے تو وہ ڈاکٹر نہیں ہے اور دوسرا جب دانت لگایا گیا تو پہلے سے کوئی زخم موجود تھا یا دانت لگاتے ہوئے کوئی ایسی چیز لگی جس سے زخم ہوگیا اور بات یہاں تک پہنچ گئی۔ جب ایک آدمی دانتوں کا ڈاکٹر ہی نہیں تو اسے کیا معلوم کے دانت کیسے لگایا جاتا ہے‘۔

’شاید میرے نصیب میں یہ بیماری لکھی ہو، مگر مجھے تکلیف اس بات کی ہوتی ہے کہ ایک ڈاکٹر کی نااہلی کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ میں تو ہر انسان کو اب یہی بولتا ہوں کہ خدارا چند پیسوں کی خاطر اپنی زندگیوں کو ایسے اطائی ڈاکٹرز کے سپرد نہ کریں جو پیسے کے لالچ میں دوسرے کو انسان تک نہیں سمجھتے۔ اور غریب کی یہی زندگی ہے کہ اس کے پاس علاج کروانے کے بھی پیسے نہیں ہوتے۔ میں لوگوں سے مانگ تانگ کر علاج کروا رہا ہوں۔‘

کیا دانت لگوانے سے واقعی کینسر ہوسکتا ہے؟

دانتوں کی معالج ڈاکٹر ماہ را بٹ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ امپلانٹ کی وجہ سے کینسر ہونے کے نصف فیصد سے زیادہ امکان نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ جو دانت فکس نہیں ہوتے کچھ اطائی ڈاکٹرز انہیں فکسڈ لگا دیتے ہیں جو کینسر کا باعث بنتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے ڈاکٹرز کو اطائی ڈاکٹرز کہا جاتا ہے جو ہمارے ملک میں بہت عام ہیں اور یہ وہ ڈاکٹرز ہوتے ہیں جن کے پاس کوئی پی ایم ڈی سی کے سرٹیفکیٹس نہیں ہوتے جس کے بعد باقاعدہ لائسنس ملتا ہے۔ اس کے علاوہ پی ایم ڈی سی کے سرٹیفکیٹ کی بھی ایک مدت ہوتی ہے جس کے بعد دوبارہ پھر سے ری اپلائی کرنا پڑتا ہے کیونکہ لائسنس کو اپڈیٹ کرنا ضروری ہوتا ہے۔

’وہ ڈاکٹرز جنہوں نے ٹریننگز نہیں کی ہوتیں، جن کے پاس پی ایم ڈی سی سرٹیفکیٹ نہیں ہوتا، وہ اپلائی کلینک نہیں چلا سکتے۔ دوسرا یہ کہ جب بھی کوئی مریض کسی ڈاکٹر کے پاس جائے تو یہ اس کا حق ہے کہ وہ ڈاکٹر سے اس کا پی ایم ڈی سی سرٹیفکیٹ دکھانے کو کہہ سکتا ہے۔ بلکہ تمام ڈاکٹرز کو چاہیے کہ وہ اپنے کلینکس میں سرٹیفکیٹ کو چسپاں کریں‘۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر ماہ را کا کہنا تھا کہ ’مجھے اس بات میں شک ہے کہ کوئی اطائی ڈاکٹر دانت امپلانٹ کرتا ہوگا، لیکن اس کے علاوہ پاکستان کے گلی محلوں میں ہر طرح کا علاج عام ہورہا ہوتا ہے، وہ ٹھیک کررہے ہیں، غلط کر رہے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔

’صرف راولپنڈی نہیں بلکہ اسلام آباد میں بھی یہ بہت عام ہے کہ اس طرح کے اطائی ڈاکٹرز بیٹھے ہوتے ہیں اور اسپیشلسٹ دیکھ کر پہچان جاتے ہیں کہ یہ مریض کہاں سے ہوکر آیا ہے۔ کیونکہ وہ مریضوں کے منہ میں وہ چیزیں بھی لگا دیتے ہیں جو ہونی ہی نہیں چاہیے۔‘

راولپنڈی کے کمیٹی چوک میں تھڑے پر بیٹھ کر دانت لگانے والا اطائی محمد شہزاد

راولپنڈی کے گنجان علاقے کمیٹی چوک میں سڑک کنارے اپنا تھڑا سجائے محمد شہزاد بھی بیٹھا تھا جو دانت کے درد کو دُور بھگانے اور پالش کرانے کے لیے لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے آوازیں لگا رہا تھا۔ اس نے کمال مہارت سے دانتوں کے علاج کے مختلف آلات سامنے سجائے ہوئے تھے۔ جب وی نیوز نے اس سے بات کا آغاز کیا تو اس نے اپنی مختلف سروسز پیش کیں مگر جب اس سے ڈگری کے بارے میں سوال کیا گیا تو وہ چونک گیا اور اس نے کہا کہ وہ بہت سالوں سے یہ کام کر رہا ہے۔ اس کام میں مہارت رکھتا ہے اس کے باپ دادا بھی یہی کام کرتے تھے اس لیے اس کو کسی ڈگری کی ضرورت نہیں ہے۔

تھڑے پر بیٹھ کر دانت لگانے والا اطائی شہزاد

آپ جو کام کر رہے ہیں یہ غیرقانونی ہے اور اس سے مختلف بیماریاں پھیلتی ہیں، وی نیوز کی جانب سے یہ سوال کرنے پر محمد شہزاد نے کہا کہ آج تک کسی نے اس سے شکایت نہیں کی کہ اس کے علاج سے کسی کو کوئی بیماری لگی ہے اور نہ ہی آج تک کسی حکومتی ادارے نے اس کو اس جگہ سے اٹھایا ہے۔

’میرے پاس گٹکا یا پان کھانے والے افراد زیادہ آتے ہیں‘

’پہلے میں گلی محلوں میں جایا کرتا تھا اور لوگ دانت پالش کرواتے تھے، زیادہ تر لوگ دانت ہی پالش کرواتے ہیں کیونکہ ہم دانت کو فوراً دودھ کی طرح سفید کردیتے ہیں۔ میرے پاس گٹکا، سگریٹ یا پان کھانے والے افراد سب سے زیادہ آتے ہیں، اس لیے میرا ٹھکانہ اب یہی ہے۔ آتے جاتے کوئی نا کوئی گاہک بیٹھ جاتا ہے۔ اب پہلے سے کام کافی کم ہوگیا ہے، لیکن پھر بھی گاہک مل ہی جاتے ہیں‘۔

اس حوالے سے جب وزارتِ صحت سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے جواب دینے سے گریز کیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp