سال میں کافی دن ہوتے ہیں جو ہم پتہ نہیں کیوں منا رہے ہوتے ہیں۔ جیسے ویلینٹائنز ڈے، دوستی کا دن اور بھی کافی سارے دن۔ میرے سے تو کچھ نہیں منایا جاتا کیوں کے اس کے لیے ہلنا، جلنا پڑتا ہے اور ہلا مجھ سے جاتا نہیں۔ میں قید با صوفہ ہوں کئی سالوں سے۔ لیکن ایک دن میں ضرور مناتی ہوں کیوں کہ اس دن صرف سوچنا ہوتا ہے، کچھ کرنا نہیں ہوتا۔ اور وہ ہے اپریل فول۔
یہ دن دنیا بھر میں منایا جاتا ہے اک نئے سرے سے لوگوں کو پاگل بنانے کے لیے۔ حکومت، افسران، جج صاحبان، رشتے دار، گھر والے، دکان والے، ہر طرح والے جب آپ سب کو پاگل بنا چکے ہوتے ہیں تو انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ اب ایک پاگل بنانے کا عالمی دن بھی ہونا چاہیے۔ جس کی ضرورت بالکل نہیں تھی۔ لیکن اب اپریل فول ہے تو ہم کیا کریں۔ ہم سب پاگل ہیں تو کیا کریں۔ ہم روز پاگل بننے والے ایک اور دن پاگل بننے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔
پاکستان میں تو خیر شاید ہی کوئی ہے جو کسی دوسرے کو فول نا بنا رہا ہو۔ یہ تو خیر الگ بات ہے لیکن میں سوچ رہی تھی کہ میں اپریل فول والے دن اٹھوں تو دنیا ہی بدل گئی ہو۔ اپریل فول کے مطابق عمران خان وزیر اعظم بن گئے ہوں۔ ملک میں مہنگائی ختم ہوگئی ہوگی۔ پرویز خٹک نے بیکری کے جو بسکٹ ختم کیے تھے وہ واپس آ گئے ہونگے۔ شاہ محمود قریشی نا صرف جیل سے باہر آ گئے ہونگے بلکہ انہوں نے بولنا بھی چھوڑ دیا ہو گا۔ اپریل فول کے مطابق جاپان اور جرمنی کا بارڈر بھی مل گیا ہو گا۔ اب تو میرا واقعی دِل کر رہا ہے کہ عمران خان باہر آ جائیں۔
اب اسی اپریل فول کو نون لیگ پر لگا دیں۔ نواز شریف وزیر اعظم ہوں۔ لاہور سے فلائی اوور سیدھا نیو یارک تک بنا ہوا ہو۔ میاں صاحب کا ماسک ان کی ٹھوڑی کی جگہ ان کے منہ کے اوپر ہو۔ نون لیگ صحیح والا شیر بھی ڈھونڈ لے۔ خواجہ آصف ‘یہ جو ہے’ کو جو ہے کہنا شروع کر دیں۔ ڈار صاحب ریٹائرڈ کر دیے گئے ہوں اور وزیر خزانہ کی سیٹ ہی ختم ہوگئی ہو۔ انٹرنیٹ دوڑنا شروع ہوجائے اور ٹویٹر وی پی این کے بغیر چلنا شروع کر دے۔ حکومت کو پتہ چل جائے گا کہ ٹویٹر بند بھی تھا۔ اور پورے ملک میں پائے ہی پائے جائیں۔ واہ !
جہاں تک میرا تعلق ہے کہ اپریل فول کے تحت میں کیا چاہوں گی۔ ساری دنیا صوفے پر بیٹھی ہو۔ نوکری کی ضرورت ختم ہوجائے۔ کوئی مجھ سے بات نا کرے۔ میرے پاس صرف کارنر پلاٹ ہوں اور یہ اپریل فول چلتا ہی رہے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔۔۔۔