وہ ’ایک‘ تھا مگر دلیر تھا۔ ابتلاء کا وقت اس پر بھی آیا تھا۔ ظلم کے پہاڑ اس پر بھی ٹوٹے تھے۔ خفیہ ہاتھوں کی چیرہ دستیوں کی داستان اس کی کتابِ زیست میں بھی رقم تھی۔ دھمکیاں اس کو بھی ملی تھیں۔ نوکری جانے کا اس کو بھی خطرہ تھا۔ گھر بار برباد ہونے کا خوف اس کو بھی تھا۔ پنشن اور مراعات جانے کا دھڑکا اس کو بھی لگا تھا۔
اس نے بھی یہی الزام لگایا تھا، اس نے بھی یہی بات دہرائی تھی۔ اداروں کی دخل اندازی کی بات کی تھی۔ درون خانہ ہونے والی ملاقاتوں کی بات کی تھی۔ فیصلوں پر اثر انداز ہونے والوں کا ذکر کیا تھا۔ اس کو بھی مظلوم پر ظلم ڈھانے کا حکم ملا تھا۔ اس کو بھی انصاف کے منہ پر طمانچہ مارنے کا درس دیا گیا تھا۔ اس کو بھی قانون پامال کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کو بھی کہا گیا تھا کہ قانون کی کتاب کو طاق میں رکھ دو، آئین کو پاؤں کی دھول سمجھو۔ طاقتور کی زبان سمجھو، اسی کو آئین مان لو، اسی کو قانون کہہ دو، اسی پر ایمان لے آؤ، اس کو حق جان لو ۔
وہ نہ دھمکیوں سے مرعوب ہوا ، نہ پنشن کا لالچ اس کی راہ کی رکاوٹ بنا، نہ اس نے کسی پرُکشش عہدے کی پرواہ کی نہ اوپر کی بے تحاشا کمائی کے بارے میں لمحہ بھر کے لیے سوچا۔ اس نے سرکار کی کسی مراعت کو حق کے راستے میں نہ آنے دیا۔ یہ نہیں کہ اس کو پیشکش نہیں کی گئی۔ اس کو سبز باغ دکھائے گئے جو ’ایک‘ حکم پر سنہرے ہو سکتے تھے۔ اس کو پلاٹ، پیسہ اور پراپرٹی کا لالچ دیا گیا۔ اس کے ایمان کی ہر طرح آزمائش کی گئی۔ دھمکی بھی دی گئی۔ ڈرایا دھمکایا بھی گیا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔
اس نے سچ بولنے کے لیے کئی برس انتظار نہیں کیا۔ اس نے حق کا ساتھ دینے کے لیے درخواستیں جمع نہیں کروائیں۔ اس نے سچ بولنا اور بروقت بولنا پسند کیا۔ اس نے فوری طور پر راولپنڈی بار کے میدان کا انتخاب کیا۔ پورے دھڑلے سے وہ سب کچھ کہا جس کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی لوگوں کے پر جلتے ہیں۔ اس نے علی الاعلان فلک شگاف سچ بولا۔ وہ کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوا۔ اور پھر وہ اس پر کبھی شرمسار نہیں ہوا ۔
یہ نہیں ہوا کہ اس کو سچ بولنے کی سزا نہیں ملی۔ اس کی نوکری ختم ہو گئی۔ پنشن بند ہو گئی۔ دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بچوں پر نگاہ رکھی جانے لگی۔ بیٹی کے اغوا کا دھڑکا لگ گیا۔ روزگار کا ہر ذریعہ ختم ہو گیا۔ کھانے پینے کے لالے پڑ گئے۔ مگر اس سے اس کی استقامت میں رتی بھر فرق نہیں پڑا۔ وہ سچ پر ڈٹا رہا۔ استبداد کے سب خنجر سینے پر سہتا رہا لیکن اس نے انصاف کا سودا نہیں کیا۔ کوئی فیصلہ کسی دباؤ کے تحت نہیں دیا۔
اور یہ ’چھ‘ ہیں ۔ ان کی بھی قریباً ویسی ہی داستانیں ہیں مگر اس کہانی میں بہت موڑ ہیں۔ ان کا بھی الزام وہی ہے مگر ان کی شکایات میں وقت مانع ہے۔ ان کو بھی اسی جبر کا سامنا ہے جس کا ذکر پہلے ’ایک‘ نے کیا تھا۔ بقول ان کے انہیں بھی اسی صورت حال کا سامنا ہے جس کا پہلے تذکرہ ہو چکا ہے۔ ان کے خلاف بھی وہی قوتیں سرگرم ہے جنہوں نے انصاف کو ہمیشہ پامال کیا۔ ان کے پیچھے بھی وہی آسیب پڑا تھا جس کا سایہ ہر دور میں انصاف کے ترازو پر چھایا رہا ہے
ان’ چھ‘ کی کہانی مختلف اس لیے ہے کہ انہوں نے حق بات کہنے کے لیے وقت کا انتظار کیا۔ کلمہ حق کا نعرہ لگانے کے لیے مناسب موقع محل کی تلاش کی۔ انہوں نے درخواستوں کے ذریعے سچ کے حصول کی کوشش کی۔ علی الاعلان سچ کہنے سے احتراز کیا۔ انہوں نے تامل سے کام لیا۔ معاملے کو تعطل میں ڈال دیا۔ ایسے وقت کا انتظار کیا جب حالات مناسب ہوں، جب سب کچھ موافق ہو۔ پھر سچ بولا جائے۔ پھر حق کی بات کہی جائے ۔ پھر اپنی مجبوریوں کا قصہ بیان کیا جائے۔ پھر ظلم کی داستانوں کا تذکرہ سنایا جائے۔
ان ’چھ‘ میں یہ بات بھی مختلف ہے جب ان کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے والی قوتوں نے بوجھ ڈالا تو اس کے دو سال بعد انہوں نے کلمہ حق کہنا گوارا کیا۔ بروقت سچ سے احتراز کیا۔ انہوں نے اس وقت بھی میزان عدل کو خیر باد نہیں کہا جب بقول ان کے فیصلوں پر اداروں کا بوجھ پڑ گیا۔ بلکہ اس دوران مقدمات آتے رہے جاتے رہے، انصاف کا خون ہوتا رہا اور یہ انصاف کے مائی باپ خاموش رہے۔ نہ حرف شکایت اس وقت ان کی زبان پر آیا نہ کسی نے اُف کی۔
ان ’چھ‘ میں ’ایک‘ اور بات مختلف یہ ہے کہ اداروں کی چیرہ دستیوں کی داستان طشت از بام کرنے کے بعد بھی یہ تختِ عدل پر براجمان رہے۔ نہ انہوں نے رخصت چاہی نہ مقدمات سے کنارہ کشی کا فیصلہ کیا۔ یہ جانتے بوجھتے کہ اس اقرار کے بعد ان کے تمام فیصلے مشکوک ہیں، ان کے تمام اقدامات آلودہ ہیں۔ انہیں انصاف سے فوری مستعفی ہو جانا چاہیے، عدل کے دعویٰ سے تائب ہو جانا چاہیے کیونکہ بقول ان کے یہ انصاف نہیں دے پا رہے۔ ان کے اوپر اتنا دباؤ ہے کہ یہ سچ کہہ نہیں پا رہے۔
عدل کا کاروبار بھی عجب کاروبار ہے۔ ہم نے دیکھا کسی کی ساس کی آڈیو آتی ہے تو استعفٰی دینے کے بجائے خود مسند پر چڑھ کر فیصلہ سنانے کی فرمائش کرتا ہے۔ کسی کا بیٹا کسی جماعت کے ٹکٹ باپ کے نام پر بیچتا ہے تو عدل منہ میں گھنگنیاں ڈال لیتا ہے۔ یہی معاملہ انصاف دینے والوں کا بھی ہے۔ ’ایک‘ شخص اداروں پر اعتراض کرتا ہے سارا سسٹم اس کا دشمن ہو جاتا ہے۔’ چھ‘ مل کر ’ محفٖوظ اور مناسب وقت ‘ پراس بات کا اقرار کرتے ہیں تو سسٹم کے لاڈلے ہو جاتے ہیں۔
میں پورے ایمان سے کہتا ہوں کہ اداروں کو عدلیہ میں مداخلت سے باز رہنا چاہیے۔اس کے خلاف ہر فورم پر آواز اٹھانی چاہیے۔ احتجاج کرنا چاہیے لیکن سچ کہنے کے لیے مناسب وقت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ سچ بروقت علی الاعلان بولنا چاہیے۔
میں کبھی علم ریاضی میں طاق نہیں رہا لیکن جانے کیوں مجھے اس’ ایک‘ بٹا ’چھ‘ کی تقسیم میں ’ایک‘ کا پلڑا ان’ چھ‘ پر بھاری نظر آتا ہے۔