پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ وفاقی وزیرداخلہ مسحن نقوی جو نیا عہدہ چاہیں لے سکتے ہیں، محسن نقوی، فیصل واوڈا اور انوارالحق کاکڑ کا تعلق ایک ہی قبیلے سے ہے، جبکہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کو ان تینوں کا کزن کہا جا سکتا ہے۔
نواز شریف کی رہنمائی کی ضرورت ہے
سابق وزیرداخلہ نے فیصل آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک اس وقت جن مشکلات میں گھرا ہے، نوازشریف کی رہنمائی کی ضرورت ہے، نواز شریف کی قیادت میں ملک کو مستحکم کرنے اور معیشت کی بہتری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
سیاسی صورتحال اچھی نہیں
مزید پڑھیں
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں سیاسی صورتحال اچھی نہیں ہے، 8 فروری کے انتخابات کے بعد بھی سیاسی استحکام نہیں مل سکا، کچھ سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ میں ہیں مراعات بھی لے رہی ہیں اور سیاسی عدم استحکام بھی پیدا کر رہی ہیں۔
پاکستان معاشی دلدل میں دھنسا ہوا ہے
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ پاکستان اس وقت معاشی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ 2018 میں ملک سیاسی اور معاشی طور بھی مستحکم تھا۔ اُس وقت کی حکومت کو ڈی ریل کیا گیا اور الیکشن میں دھاندلی کرائی گئی۔ ملک کو سیاسی عدم استحکام کا شکار کیا گیا، جس سے معاشی حالات بھی خراب ہوئے۔
پارٹی کے ساتھ اختلافات کا تاثر اور اندازے بالکل غلط ہیں
ن لیگی رہنما کا کہنا تھا پارٹی کے ساتھ اختلافات کا تاثر اور اندازے بالکل غلط ہیں، الیکشن کے بعد تمام پارٹی اجلاسوں میں شامل رہا ہوں۔ ہر سیاسی جماعت میں مختلف نقطہ نظر ہوتے ہیں، ہر کسی کو حق ہوتا ہے اپنا نقطہ نظر پیش کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کی صدارت کی ذمہ داری پوری کر رہا ہوں جبکہ پارلیمانی سیاست میں آگے آنے والوں کو ہی حکومتی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں۔
اسٹیبلشمنٹ کا رول ختم ہوا نہ ہوگا
سابق وزیرداخلہ نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کا رول دنیا میں نہ کہیں ختم ہوا نہ ہوگا، اسٹیبلشمنٹ 2010 میں جو تھی 2018 میں نہ تھی جو تب تھی اب نہیں ہے، اسٹیبلشمنٹ کی موجودہ لیڈر شپ انتہائی دیانتدار اور آزاد ہے جن کے کوئی ذاتی مفادات نہیں ہیں۔
رانا ثنااللہ کے مطابق سب کی کوشش اور خواہش سیاسی استحکام ہے جس کے لیے سیاسی قیادت کو کردار ادا کرنا ہے، اگر کوئی سیاسی جماعت باقی سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات چیت اور مل کر چلنے کے لیے تیار نہ ہو گی تو افراتفری ہو گی۔
ایک سیاسی جماعت کا لیڈر اپنی جماعت کے لوگوں کی بھی نہیں سنتا
صدر مسلم لیگ ن پنجاب نے کسی جماعت کا نام لیے بغیر کہا کہ ایک سیاسی جماعت یہ رویہ اپنائے ہوئے ہے اس کا لیڈر اپنی جماعت کے لوگوں کی بھی نہیں سنتا، اس انتخابات کے بعد اگر وہ حکومت بنانا چاہتے تو بنا سکتے تھے، ایسی سیاسی قوت جب تک موجود رہے گی ملک مستحکم نہیں ہو سکتا۔