ملک میں اچانک گندم کی قیمتوں میں بڑی کمی ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل فی من گندم کی قیمت 5400 روپے فی من سے بھی زیادہ تھی، لیکن اب فی من گندم کا ہول سیل ریٹ کم ہو کر ملک میں 3600 سے لے کر 3900 روپے تک ہے۔ گندم کی قیمت میں کمی کی ایک بڑی وجہ نگراں حکومت کی جانب سے گندم کی امپورٹ ہے۔ جو پاکستان پہنچ چکی ہے جبکہ دوسری وجہ ملک میں رواں برس گندم کی بمپر فصل ہے۔
لیکن سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ برس بھی وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے گندم کی فصل کو بمپر فصل قرار دیا گیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ملک میں گندم کی قلت کی وجہ سے گندم اور آٹے کی قیمت میں اضافہ ہوا۔ تو کیا اس بار بھی اس طرح کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے؟
مزید پڑھیں
قیمت میں کمی کی ایک وجہ گندم کی امپورٹ ہے، مل مالک احمد اعجاز
وی آئی پی فلور مل کے مالک احمد اعجاز نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ملک میں گندم کی قیمت میں کمی کی ایک وجہ نگراں حکومت کی جانب سے گندم کی امپورٹ ہے۔
انہوں نے کہاکہ رواں برس پنجاب کی گندم کو بارشوں کی وجہ سے نقصان پہنچا، لیکن اس کے باوجود اچھی فصل ہوئی۔ جس کی وجہ سے حکومت نے اس بار 5 یا 6 لاکھ ٹن گندم کی خریداری کا کہا ہے کیونکہ گزشتہ برس کی گندم بھی اب تک حکومت کے پاس پڑی ہے۔ ورنہ حکومت ہر سال 40 لاکھ ٹن کے قریب گندم خریدتی ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ ان سب وجوہات کی وجہ سے گندم کی قیمت بہت کم ہوچکی ہے اور حکومت رواں برس کسانوں اور کاشتکاروں سے 3900 روپے فی من گندم خریدے گی جبکہ آج مارکیٹ میں ہمیں 3650 روپے میں فی من گندم مل رہی تھی۔ جبکہ سندھ کی گندم کا ریٹ کرایہ زیادہ ہونے کی وجہ سے 100 روپے زیادہ ہے۔
رواں برس گندم کی قلت نہیں ہوگی
رواں برس گندم کی قیمت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس سال گندم کی قلت نہیں ہوگی، جس کی وجہ سے گندم کے ریٹ نہیں بڑھیں گے۔ ’گزشتہ برس بھی گندم کی فصل کو بمپر فصل کہا گیا تھا لیکن ذخیرہ اندوزوں کی وجہ سے گندم یوکرائن سے امپورٹ کرنا پڑی تھی جس کے باعث فی من گندم کا ریٹ 5400 روپے تک چلا گیا تھا اور 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 2800 روپے تک تھی‘۔
انہوں نے کہاکہ اس بار 20 کلو آٹے کے تھیلے کہ قیمت 2200 روپے تک ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ اس بار گزشتہ سال کی طرح گندم کا ذخیرہ نہیں ہونے دیا جائےگا۔
واضح رہے کہ آڈیٹر جنرل پاکستان کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں گندم کی قیمت میں اضافے کی وجہ مہنگی گندم امپورٹ کرنا ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2017 سے 2022 تک سرکاری اداروں کی جانب سے مہنگی گندم درآمد کی گئی۔ سرکاری محکموں ٹی سی پی اور پاسکو کی طرف سے گندم کی مہنگی امپورٹ کی وجہ سے قومی خزانے کو 31.32 ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔ اور یہی وجہ ہے کہ مہنگی گندم کی امپورٹ سے پاکستان میں آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور عام صارف کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔