پنجاب میں اس سال گندم کی بمپر فصل ہوئی ہے لیکن کاشتکاروں کو کم حکومتی نرخ کے باوجود خریداری نہ ہونے پر پریشانی کا سامنا ہے۔
مزید پڑھیں
حکومت نے اس سال گندم کی خریداری کا ہدف 3900 روپے فی من مقرر کیا ہے جب کہ گزشتہ برس یہ نرخ 4000 روپے تھا۔
پنجاب میں گندم کی کٹائی تقریبا ختم ہونے والی ہے لیکن فروخت حکومتی نرخ سےکم پر بھی نہیں ہو رہی۔ کاشتکاروں کے مطابق فلور ملز گندم 2000 سے 2200 روپے فی من کے نرخ پر خرید رہی ہیں اور حکومتی اعلان کے باوجود انہوں نے ابھی تک خریداری شروع نہیں کی۔
صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین کے مطابق پنجاب میں ان دنوں ضرورت سے زیادہ 26 ہزار میٹرک ٹن درآمدی گندم گوداموں میں موجود ہے جو نگران حکومت نے منگوائی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ’باردانے کی لاکھوں درخواستیں موصول ہوئی ہیں لیکن ہم 40 لاکھ میٹرک ٹن گندم نہیں خرید سکتے کیوں کہ اس سے 300 تا 400 ارب روپے کا نقصان ہو گا‘۔
محکمہ خوراک پنجاب کے مطابق کاشتکاروں سے باردانے کے اجرا کے لیے پی آئی ٹی بی (پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ) کی موبائل ایپ کے ذریعے 13 اپریل سے 17 اپریل کو وصول کی گئیں۔
پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ اور پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کی تصدیق کے بعد کسانوں کو باردانہ ایپ کے ذریعے تصدیقی پیغامات موصول ہوں گے لیکن یہ ایپ اس وقت کریش کر گئی جب کسانوں نے گندم کے حصول کے لیے اپلائی کیا۔
پنجاب میں گندم کی خریداری کے 393 مراکز قائم کیے گئے ہیں لیکن پنجاب حکومت کی طرف سے گندم کی خریداری ابھی تک ممکن نہ ہوسکی۔
ذرائع کے مطابق پنجاب حکومت نے گندم کے معاملے پرنئی حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
پنجاب حکومت کی حکومتی پالیسی پرپورا اترنے والے کسانوں کو 400 سے 600 روپے فی من سبسڈی دینے کے حوالے سے ایک تجویز سامنے آئی ہے جس سے کسان کے نقصان کا کافی حد تک ازلہ ہو سکے گا۔
حکومتی ذرائع کے مطابق حکومت کے پاس اگلےسیزن تک 23 لاکھ میٹرک ٹن گندم موجود ہے اور کسانوں کے پاس جو گندم ہے اس میں بارشوں کی وجہ سے نمی ہے اسے ذخیرہ کرنا ممکن نہیں۔
دوسری طرف حکومت نے گندم کی بین الصوبائی نقل و حمل سے بھی پابندی اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے جس کا باقاعدہ اعلان جلد ہوگا۔
کسانوں کی گرفتاریاں، اپوزیشن کا کسانوں کے اسمبلی میں احتجاج
گندم خریداری کے حوالے سے مسائل کے خلاف کسانوں کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے باہر احتجاج کے اعلان کے بعد کسان بورڈ کے صدر رشید منہالہ سمیت 4 کسانوں کو گرفتار کرلیا گیا جس کی تصدیق کسان بورڈ نے کی ہے۔
کسان بورڈ پاکستان نے بتایا کہ دیگر رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں اور احتجاج روکنے کے لیے گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔
دوسری طرف صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کے مطابق ابھی تک کسی کسان کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر کا کہنا تھا گندم خریدنے پر حکومت سیریس نہیں میری اپنی کو گندم 2500 روپے میں آفر ہوئی لیکن ایک ہفتے کے بعد پیسے ملیں گے۔
حکومت نے بین الصوبائی بارڈر کھولنے کااعلان کیا ہے جس کا مطلب آڑھتی کو سہولت دینا ہے۔ پاسکو 18 لاکھ گندم خریدے گی لیکن پورے پنجاب میں پاسکو نہیں ہے۔
اگر یہ ہی حالات رہے تو گندم کا مسئلہ پیدا ہوگا، ملک احمد خان
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کا کہنا تھا کہ سپورٹ پرائس سے بلاتفریق پنجاب میں کسان کو سہولت دینا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر خوراک سے بات کی ہے وہ خود کہتے ہیں کسان بے چین ہے، کسان کو بجلی کے بل جا رہے ہیں اس میں لائن لاسز کا جھگڑا پڑا ہوا ہے، چھوٹے کسان پر لاکھوں روپے کے بل ہیں 3 سال سے لائن لاسز کے مسئلے ہیں اگر یہی حالات رہے تو گندم کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے اس لیے کسان کا مسئلہ حل کرنا ہوگا وگرنہ بحران پر بحران پیدا ہوگا۔
پنجاب حکومت کا کسانوں سے گندم نہ خریدنے کا اقدام عدالت میں چیلنج
حکومت پنجاب کی جانب سے گندم نہ خریدنے کے اقدام کے خلاف درخواست فرحت منظور چانڈیو ایڈووکیٹ نے دائر کی ہے۔ درخواست میں چیف سیکریٹری پنجاب سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ حکومت کسانوں سے گندم سرکاری قیمت پر خریدنے کی پابند ہے۔ حکومت نے 3900 روپے فی من گندم خریداری کے لیے پالیسی جاری کی اور 22 اپریل سے کسانوں سے گندم کی خریداری شروع کرنی تھی۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے اپنی پالیسی کے مطابق کسانوں سے گندم کی خریداری شروع نہیں کی، بارشوں کی وجہ سے کسان سستے داموں فصل گندم مافیا کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں اور سرکاری قیمت پر گندم کی خریداری نہ کر کے کسانوں کے بنیادی حقوق پامال کیے جارہے ہیں۔
درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ حکومت کو کسانوں سے گندم کی خریداری کا حکم دیا جائے اور گندم مافیا کے خلاف کارروائی کے احکامات جاری کیے جائیں۔