ماضی میں کب کب گندم اور چینی بحران نے حکومتوں کو مشکل میں ڈالا؟

پیر 6 مئی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ملک میں گندم کے ذخائر موجود ہونے کے باعث کسانوں سے سرکاری نرخ پر گندم خریدنا پہلے حکومت کے لیے ایک مشکل عمل لگ رہا تھا تاہم اب یہ بحران کی شکل اختیار کرگیا ہے، موجودہ حکومت کی تشکیل کے بعد سب سے بڑا بحران جس میں ماضی کے بڑے حکمرانوں کے نام سامنے آرہے ہیں وہ گندم کا بحران ہے، اور یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ نگراں حکومت کے باقی تو تمام فیصلوں سے سب متفق نظر آئے تاہم گندم کے بڑے ذخائر موجود ہونے کے باوجود مزید گندم درآمد کرنے کے فیصلے پر کڑی تنقید اور تحقیقات کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف نے گندم اسکینڈل پر وزیراعظم شہبازشریف کو آج (6 مئی) لاہور طلب کرلیا ہے، تاکہ ذمے داروں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا جاسکے۔ گندم اسکینڈل کےحقائق سامنے آنے پر پنجاب حکومت گندم خریدنے یا نہ خریدنے کا فیصلہ کرے گی، تب تک کسانوں کے پاس موجود لاکھوں ٹن گندم کا کوئی خریدار نہیں۔

وی نیوز نے تحقیق کی ہے کہ ماضی میں کب کب گندم یا چینی کا اسکینڈل بحران کی شکل اختیار کرگیا اور اس سکینڈل سے حکومتوں کو کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

بحران ہمیشہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ملک میں گندم یا چینی کی قلت ہوجائے اور اس بحران کو بیرون ملک سے درآمد کرکے حل کیا جاتا ہے، تاہم اس مرتبہ پہلی بار ایسا ہورہا ہے کہ گندم لاکھوں ٹن میں موجود ہے لیکن کوئی خریدنے والا نہیں۔

پی ڈی ایم کا دور حکومت اور گندم بحران

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے دور حکومت میں جنوری 2023 میں بھی ایک مرتبہ گندم کا بحران شدت اختیار کرگیا تھا، افغانستان اسمگل ہونے کے باعث ملک بھر میں گندم کی قلت ہوگئی تھی اور آٹے کی قیمت کنٹرول سے باہر ہوگئی تھی، آٹے کی قیمت میں 60 روپے کلو اور گندم کی قیمت میں 1500 روپے فی من کا اضافہ ہوا تھا، جس پر گندم کی طلب پوری کرنے کے لیے حکومت نے 30 لاکھ ٹن گندم کی درآمد کی اجازت دی تھی جس کے بعد گندم کا بحران حل ہوگیا۔

ستمبر 2023 میں جب نگراں حکومت نے اقتدار سنبھالا ہوا تھا تو اچانک ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوگیا اور چینی 100 روپے سے 200 روپے کلو کے لگ بھگ فروخت ہونے لگی۔

اس وقت نگراں حکومت نے موقف اختیار کیاکہ ملکی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے حکومت چینی درآمد کرنے پر غور کررہی ہے، تاہم چونکہ نگراں حکومت تھی اس لیے اس معاملے کو زیادہ طول نہ ملا اور گنے کی نئی فصل آنے پر بحران حل ہوگیا۔

پی ٹی آئی کے دور کا چینی اسکینڈل

پاکستان کی تاریخ میں ہر دور حکومت میں ایسے بحران شدت اختیار کرجاتے ہیں، پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں چینی اسکینڈل بہت مشہور ہوا تھا اور اس کے باعث وفاقی وزیر سے قلمدان بھی واپس لے لیا گیا تھا۔

اپریل 2020 میں چینی اسکینڈل کی تحقیقات ایف آئی اے نے کی تھیں جس میں انکشاف ہوا کہ پی ٹی آئی رہنماؤں خسرو بختیار اور جہانگیر ترین کو چینی کی برآمد کے لیے 80 کروڑ روپے سے زیادہ کی سبسڈی دی گئی۔

جب خسرو بختیار سے وفاقی وزیر برائے فوڈ سیکیورٹی کا قلمدان واپس لیا گیا

ایف آئی اے کی رپورٹ کے بعد وزیراعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی تھیں اور وفاقی وزیر برائے فوڈ سیکیورٹی خسرو بختیار سے ان کا قلمدان واپس لے کر فخر امام کو دے دیا گیا تھا۔

اسی طرح کا ایک اور گندم بحران جنوری 2020 میں آیا تھا کہ جب مارکیٹ میں گندم کی قلت پیدا ہوگئی تھی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ گندم برآمد کردی گئی تھی اور فیڈ ملز نے گندم کا ریٹ کم ہونے کے باعث 7 سے 8 لاکھ ٹن گندم کی اضافی مقدار استعمال کرلی تھی، حالانکہ فیڈ ملز مکئی کا استعمال کرتی ہیں۔

اس اسکینڈل کی تحقیقاتی رپورٹ میں حکمراں اتحاد میں شامل پاکستان مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الٰہی کو بھی نامزد کیا گیا تھا جبکہ صوبہ پنجاب کے سابق سیکریٹری خوراک نسیم صادق کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ اس عرصے میں بھی گندم کی قیمت میں اچانک ایک ہزار روپے من سے زیادہ کا اضافہ ہوا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp