مخصوص نشستوں سے متعلق ہائیکورٹ کے فیصلے کی معطلی کے بعد سینیٹ اور صدارتی الیکشن کا مستقبل کیا ہوگا؟

پیر 6 مئی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جسٹس منصور علی شاہ کی قیادت میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے آج سنی اتحاد کونسل کے حوالے سے پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو معطل کر دیا۔ جس سے پارلیمنٹ میں موجود دیگر جماعتوں کو سنی اتحاد کونسل کے حصے کی دی گئی اضافی مخصوص نشستوں پر حکم امتناع جاری ہو گیا۔

اس فیصلے سے 3 سوال پیدا ہوتے ہیں کہ کیا اس فیصلے سے سینیٹ، سینیٹ چیئرمین اور صدارتی انتخاب پر کوئی اثر پڑے گا، کیا پارلیمان حتمی فیصلے تک قانون سازی کر پائے گا اور کیا مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین اسمبلی کے نوٹیفیکیشن واپس لیے جائیں گے؟

 ان سوالات کے جوابات سے پہلے آج کی سماعت کا مختصر احوال جس کے دوران بینچ کی جانب سے ایک سوال جو بار بار اٹھایا گیا کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے فہرستیں اور کاغذات جمع نہیں کروائے تو انہیں مخصوص نشستیں نہیں ملیں لیکن ان کے حصے کی نشستیں دوسری جماعتوں کو کیسے دی جا سکتی ہیں۔

ایک مرحلے پر الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے عدالت سے کہا کہ وہ ذاتی طور پر سنی اتحاد کونسل کو سیاسی جماعت تسلیم نہیں کرتے۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ آپ کس طرح یہ کہہ سکتے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن تو انہیں تسلیم کر چکا ہے۔ جس پر سکندر بشیر نے کہا الیکشن کمیشن جو بھی کہے وہ سنی اتحاد کونسل کو سیاسی جماعت تسلیم نہیں کرتے۔ اس پر عدالت میں قہقہہ لگا جس پر سکندر بشیر بولے قہقہے تو لگتے رہیں گے لیکن یہی حقیقت ہے۔

ٹربیونل بھی تو لوگوں کو نااہل کرتے ہیں لیکن گزشتہ فیصلوں کو استثنیٰ ہوتا ہے، کامران مرتضٰی

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور جمیعت علمائے اسلام ف کے سینیٹر کامران مرتضٰی نے وی نیوز کےساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو ہو چکا وہ ہو چکا اس کے بارے میں کوئی سوال پیدا نہیں ہوگا۔ بعض ممبران اسمبلی ٹربیونل کے ذریعے سے نااہل ہوتے ہیں، بعض وفات پا جاتے ہیں لیکن ماضی میں ہو گئے فیصلوں کو استثنٰی حاصل ہوتا ہے۔

کامران مرتضٰی نے کہا فیصلہ معطل ہونے کی صورت میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مخصوص نشستوں پر دیگر جماعتوں کے زائد اراکین کے نوٹیفیکیشن واپس لینا پڑیں گے کیونکہ جس فیصلے کی بنیاد پر وہ اراکین اسمبلی بنے تھے وہ فیصلہ ہی نہیں رہا تو اب وہ کیسے اراکین رہ سکتے ہیں۔ اس فیصلے سے پارلیمنٹ سادہ اکثریت سے بل تو منظور کروا لے گی لیکن آئینی ترمیم نہیں کر پائے گی۔

اس فیصلے کے اثرات صدارتی اور سینیٹ الیکشن پر پڑنے چاہییں؛ حامد خان

سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اور پی ٹی آئی رہنما حامد خان نے وی نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے موجودہ فیصلے کے اثرات سینیٹ اور صدارتی انتخاب پر پڑنے چاہییں لیکن یہ سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کے بعد واضح ہو گا۔ اور سپریم کورٹ کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ جب سینیٹ اور صدر کا انتخاب ہو رہا تھا تب یہ معاملہ زیرالتوا تھا۔

حامد خان نے کہا کہ اس فیصلے سے خیبرپختونخواہ کے سینیٹ انتخابات پر کافی فرق پڑ سکتا ہے کیونکہ وہاں تو سینیٹ کے انتخابات ہوئے ہی نہیں اور اب اگر سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں مل جاتی ہیں تو خیبرپختونخواہ سے ہمارے سینیٹرز کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ جب تک یہ معاملہ زیرالتوا ہے پارلیمنٹ آئین سازی نہیں کر سکتی لیکن روزمرہ کے امور سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے۔

موجودہ سینیٹ اور صدارتی انتخاب پر سوال نہیں اٹھے گا، حسن رضا پاشا

پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سابق چیئرمین حسن رضا پاشا نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ سینیٹ، چیئرمین سینیٹ اور صدارتی انتخاب پر سوال نہیں اٹھے گا اور ویسے بھی وہ اتنی اکثریت سے جیتے ہیں کہ یہ مخصوص نشستوں کے ووٹ نہ بھی شامل ہوں تو فرق نہیں پڑتا۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ اس فیصلے میں اگر مذکورہ اراکین اسمبلی کے نوٹیفیکیشن واپس لینے سے متعلق لکھا جائے گا تو واپس لینا پڑیں گے۔ البتہ یہ اراکین اسمبلی اپنے عہدوں کا حلف نہیں اٹھا سکیں گے نہ پارلیمنٹ جا سکیں گے۔

اس سوال پر کہ آیا پارلیمنٹ اپنی ادھوری استعداد کے ساتھ قانون سازی کر سکتی ہے حسن رضا پاشا نے کہا کہ کر سکتی ہے اور اس سلسلے میں آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ جب پاکستان تحریک انصاف نے پارلیمنٹ سے استعفے دیے تو پارلیمنٹ تو ختم نہیں ہوئی، اسی طرح سے اگر آج سنی اتحاد کونسل پارلیمان سے استعفے دے دیتی ہے تو خالی ہونے والی نشستوں پر پھر سے انتخاب ہو جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp