سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اثاثہ جات کی تفصیل سپریم کورٹ آف پاکستان کو دے دی ہے، جسے سپریم کورٹ آف پاکستان کی ویب سائٹ پر شائع کر دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
ہفتہ کے روز سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ کی 2018 سے 2023 تک کے اثاثہ جات کی سمری سپریم کورٹ آف پاکستان کی ویب سائٹ پر شائع کر دی گئی ہے، جس میں انہوں نے اپنی حاصل شدہ جائیداد، آمدنی کے علاوہ تحفے اور ورثے میں ملنے والی جائیداد کی تفصیل بتائی ہے۔
سمری میں جسٹس منظور علی شاہ نے بتایا ہے کہ خسرہ نمبر 1448 موضع راہی، تحصیل رائے ونڈ، ضلع لاہور کی جائیداد 2020 میں 15 ستمبر 2009 کو ان کی ترقی سے قبل ماں کی جانب سے تحفے میں دی گئی تھی۔
اثاثہ جات کی سمری میں انہوں نے مزید بتایا کہ 15 ایف سی سی، سید مرتاب علی روڈ، گلبرگ، لاہور والی جائیداد انہیں 15 ستمبر 2009ء کو بطور ہائی کورٹ کا جج ترقیاب ہونے سے قبل وراثت میں ملی ہے۔
سمری میں جسٹس منصور علی شاہ نے ذاتی حیثیت میں حاصل کردہ جائیداد اور اثاثہ جات کی تفصیل دیتے ہوئے بتایا ہے کہ انہوں نے ڈی ایچ اے لاہور میں 20 لاکھ 50 ہزار مالیت کا پلاٹ 2018 میں ذاتی حیثیت میں خریدا۔
دولاہا اسلام آباد میں 20 لاکھ 65 ہزار روپے مالیت کا پلاٹ بھی 2018 میں خریدا جس کی مالیت 2023 میں بھی یہی رہی، جسٹس منصور علی شاہ نے دبئی پراپرٹی کے حوالے سے اثاثہ جات کی ثمری میں ظاہر کیا ہے کہ انہوں نے اس کے لیے 2018 میں 23 لاکھ 81 ہزار 350 روپے ادا کیے جس کی مالیت 2023 میں بھی وہی رہی ہے۔
اسی طرح انہوں نے لکھا ہے کہ یونٹ نمبر 1010۔بی، سکھ چائن ریذیڈنس کے لیے انہوں نے 3 کروڑ روپے ایڈوانس کے طور پر ادا کیے، جس کی مالیت 2023 میں بھی وہی ظاہر کی گئی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اسی طرح اپنے بینک اکاؤنٹس، ہنڈا اور ٹوٹا کمپنی کی 1300 سی سی کی 2 گاڑیوں، جیولری، فرنیچر، یونیورسل ویجیٹیبل گھی ملز میں اپنے شیئرز اور فیملی لون کی بھی تفصیلات دی ہیں۔
منصور علی شاہ نے اپنے نیٹ اثاثہ جات کی تفصیل دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کے پاس 2018 میں 34 کروڑ 12 لاکھ 1 ہزار 266 روپے کے اثاثہ جات تھے جن میں 2019 میں 33 لاکھ 73 ہزار 745 روپے کا اضافہ ہوا اور یہ بڑھ کر 37 کروڑ 49 لاکھ 5 ہزار ہو گئے۔
اسی طرح 2020 میں ان کے اثاثہ جات کی مالیت میں مزید 14 لاکھ 60 ہزار روپے کا اضافہ ہوا جس کے بعد ان کے اثاثہ جات کی کل مالیت 51 کروڑ 55 لاکھ 5 ہزار روپے ہو گئی۔ اسی طرح 2021 میں ان کے اثاثہ جات کی مالیت میں مزید 22 لاکھ 82 ہزار روپے کا اضافہ ہوا اور ان کی کل مالیت بڑھ کر 53 کروڑ 83 لاکھ 7 ہزار روپے ہو گئی۔
2022 میں ان کے اثاثہ جات کی مالیت میں 3 کروڑ 98 لاکھ 9 ہزار 801 روپے کی کمی واقع ہوئی اور ان کے پاس کل اثاثہ جات کی مالیت 49 کروڑ 84 لاکھ 7 ہزار 92 روپے رہ گئی۔ اسی طرح 2023 میں ان کے اثاثہ جات کی مالیت میں مزید 1 کروڑ 40 لاکھ 8 ہزار 487 روپے کمی واقع ہوئی جس کے بعد ان کے پاس اب 2023 تک اثاثہ جات کی کل مالیت 48 کروڑ 43 لاکھ 9 ہزار 305 روپے رہ گئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے گواشوارے میں اپنی آمدنی میں سپریم کورٹ کی جانب سے ملنے والی تنخواہ، ہائی کورٹ کا جج بننے سے قبل غیر منتقل ہونے والی جائیداد، بینک پرافٹ، ڈیویڈنٹ، کیپٹل گین، میچوئل فنڈز کی تفصیلات بھی دی ہیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ کا نام دبئی پراپرٹیز لیکس کے ڈیٹا میں شامل ہے تاہم انہوں نے حاصل شدہ یہ جائیداد بطور وکیل ظاہر کی ہے اور بعد میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے اپنے اثاثہ جات میں بھی ظاہر کی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کاکہنا ہے کہ بطور وکیل انہوں نے دبئی میں ایک آف پلان پراپرٹی (ابھی تک تعمیر نہیں ہوئی) میں وقتاً فوقتاً قسط کے ساتھ سرمایہ کاری کی۔ تاہم منصوبہ مکمل نہیں ہوا اور پوری سرمایہ کاری ضائع ہوگئی۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ وہ واحد جج ہیں جنہوں نے اپنے ذاتی معاملات میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے اپنے ملکی یا غیر ملکی اثاثے منظر عام پر لائے ہیں۔
جولائی 2017 میں بھی جسٹس منصور علی شاہ نے دبئی کی جائیداد سمیت اپنے اثاثے پبلک کیے تھے جب وہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ ان کی جانب سے منظر عام پر لائی گئی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے 2016 میں دبئی میں 23 لاکھ 81 ہزار روپے مالیت کی جائیداد ظاہر خریدی تھی۔