عام انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کو اب تک متعدد سیاسی جماعتوں نے تسلیم نہیں کیا ہے، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی)، جماعت اسلامی (جے آئی)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ)، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) اور دیگر جماعتوں نے شروع دن سے انتخابی نتائج کو قبول نہ کرتے ہوئے احتجاج کی کال دی تھی۔
مزید پڑھیں
کچھ سیاسی جماعتوں نے فروری کے چند دن احتجاج کیا تاہم پی ٹی آئی نے اپریل تک احتجاج جاری رکھا اور تمام بڑے شہروں میں احتجاجی ریلی نکالی جاتی رہیں، اور تمام ہی جماعتوں کا مطالبہ یہ تھا کہ چوری کیا گیا مینڈیٹ واپس کیا جائے۔
جماعت اسلامی نے انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد سے ہی احتجاج شروع کردیا تھا اور کراچی اور اسلام آباد میں بڑے احتجاجی جلسے کیے جاچکے ہیں، تاہم عید الفطر کے بعد سے جماعت اسلامی نے انتخابی نتائج کے خلاف کوئی بڑا احتجاج نہیں کیا ہے۔
گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) نے انتخابی نتائج کے خلاف 27 فروری کو سندھ میں یومِ سیاہ منایا تھا جس میں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام سمیت دیگر جماعتوں نے شرکت بھی کی تھی۔ اس سے قبل جی ڈی اے نے 16 فروری کو جامشورو شاہراہ پر دھرنا بھی دیا تھا جس میں کارکنوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی، مگر اس کے بعد کوئی بڑا احتجاج نہیں کیا گیا۔
صوبہ بلوچستان میں بھی متعدد سیاسی جماعتوں نے 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے احتجاج کیا اور کئی روز تک دھرنا دیا۔ پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نے ڈی ار او آفس کے باہر احتجاج اور دھرنا دیا جو 10 دنوں تک جاری رہا، مگر اس کے بعد وہاں بھی مکمل خاموشی ہے۔
مارچ کے بعد سے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے انتخابی نتائج کے خلاف احتجاج کافی ٹھنڈا رہا تاہم تمام اپوزیشن جماعتوں نے عید الاضحیٰ کے بعد ملکر احتجاج کی تیاری کر رکھی ہے۔ اس سلسلے میں بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی ایک بیٹھک بھی ہوچکی ہے جس میں عید کے بعد مل کر احتجاج کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے کارکنان ملک بھر میں موجود ہیں اور ماضی میں بھی جے یو آئی آزادی مارچ اور لانگ مارچ جیسے بڑے مارچ کرچکی ہے۔
وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اپوزیشن جماعتیں عید الاضحیٰ کے بعد احتجاج سے متعلق کیا حکمتِ عملی بنا رہی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ ان سے قومی اسمبلی کی 100 سے زائد نشستیں چھینی گئی ہیں، اس لیے پی ٹی آئی کے احتجاج میں شدت بھی سب سے زیادہ نظر آئے گی۔ پی ٹی آئی نے تمام اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے، اس لیے اس احتجاج سے حکومت کو ٹف ٹائم ملنے کا امکان ہے۔
جمعیت علما اسلام اور پاکستان تحریک انصاف کے وفد نے 5 جون کو احتجاج کے حوالے سے ملاقات بھی کی تھی جس میں ایک ساتھ مل کر تحریکِ تحفظ آئین چلانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی سربراہی میں وفد نے جے یو آئی کے مرکزی رہنما شجاع الملک سے ملاقات کی تھی اور دونوں جماعتوں نے اتحاد و شراکت کا باضابطہ اعلان کیا تھا۔
اس ملاقات کے بعد اسد قیصر نے کہا تھا کہ ہمارا اتحاد ہوگیا ہے اور دیگر جماعتیں بھی اس اتحاد میں شامل ہوں گی اور عید کے بعد اپوزیشن جماعتوں کا بڑا اجلاس ہوگا جس میں احتجاج کا وقت اور مقام طے کیا جائے گا۔
جمعیت علمائے اسلام کے ایک رہنما نے وی نیوز کو بتایا کہ مولانا فضل الرحمان کو انتخابی نتائج سے دھچکا لگا ہے اور وہ کسی صورت بھی نتائج تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ جے یو آئی رہنما کے بتایا کہ عید کے بعد سڑکوں پر احتجاج کی سیاست اپنائیں گے اور مینڈیٹ چوروں کو بے نقاب کریں گے۔
جماعت اسلامی کا شمار ان سیاسی جماعتوں میں ہوتا ہے جو منظم انداز میں احتجاج کرنا جانتی ہیں اور ماضی میں بھی جماعت اسلامی اپنے احتجاج اور دھرنوں سے حکومتوں کو ٹف ٹائم دے چکی ہے۔
جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ ان کی جماعت انتخابات میں دھاندلی پر بڑی عید کے بعد بڑا احتجاج کرے گی، ان کو گرینڈ الائنس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے لیکن وہ اس لیے کسی الائنس کا حصہ نہیں بنیں گے کہ سیاسی جماعتیں ڈیل کرلیتی ہیں، تاہم حافظ نعیم کا کہنا ہے کہ انہوں نے دیگر اپوزیشن جماعتوں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ان کے احتجاجی جلسوں یا ریلیوں میں شرکت کریں گے۔
پاکستان کی یہ تاریخ رہی ہے کہ جب جب اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے خلاف مشترکہ احتجاج کیا ہے تب تب حکومتِ وقت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ اس بار اگر اپوزیشن جماعتیں الگ الگ اپنے ایجنڈے کے تحت احتجاج کریں تو ہوسکتا ہے کہ حکومت کو زیادہ ٹف ٹائم نہ ملے تاہم اگر پی ٹی آئی، جے یو آئی اور جماعت اسلامی نے مل کر سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کرلیا تو حکومت کے لیے یہ ہرگز اچھی خبر نہیں ہوگی۔