وصال یار سے دونا ہوا عشق
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
یہ شعر بعض لوگ میر تقی میر سے منسوب کرتے ہیں تاہم زیادہ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ شاد لکھنوی کا ہے۔ وہ میر کے شاگردوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ ان کا یہ شعر اپریل دو ہزار بائیس کے بعد، ہر گزرتے دن یاد آیا۔
نو اپریل تک اُس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی مقبولیت میں غیر معمولی کمی واقع ہو چکی تھی، لیکن دس اپریل کے بعد سے اب تک ان کی مقبولیت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس کا ادراک حکمران مسلم لیگ ن کو بھی ہے اور اس کا سبب بھی بخوبی معلوم ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف بار بار کہتے ہیں کہ وہ ریاست بچانے کے لیے اپنی سیاست داؤ پر لگائے ہوئے ہیں، انھیں ‘نوید’ ہو کہ وہ اپنی پارٹی کی سیاست کا بیڑہ غرق کر چکے ہیں، رہی بات ریاست کی، اللہ تعالیٰ ہی اس کے حال پر رحم فرمائے۔
اطلاعات ہیں کہ اب مسلم لیگ ن کے اندر بھی ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، جن کے خیال میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا غلط فیصلہ تھا، اس سے بھی بڑی غلطی مسلم لیگ ن کا حکومت سنبھالنا تھا۔ شاید شہباز شریف کو زعم تھا کہ وہ ایک صفحہ پر بیٹھ کر بازی جیت لیں گے۔ تاہم آنے والے وقت نے انھیں دن میں تارے دکھا دیے، اب وہ کہتے پھر رہے ہیں کہ وہ استعفیٰ دیدیں گے لیکن دباؤ برداشت نہیں کریں گے۔
نکتہ یہ ہے کہ آپ عوام دشمن اقدامات کرکے، ان کی گردن کے گرد شکنجہ مزید تنگ کرکے کیسے بازی جیت سکتے ہیں! جہاں ریاست کے تمام ادارے محض دو فیصد طبقہ اشرافیہ کی پرتعیش زندگی کو یقینی بنانے کے لیے ہی کام کر رہے ہوں، عام آدمی کے لیے انتہائی مہنگی بجلی اور صدر، وزیراعظم، گورنرز، وزرائے اعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزرا، سینیٹرز، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور دیگر حکام بالا کے لیے مفت بجلی۔ عام آدمی کے لیے انتہائی مہنگا پیٹرول جبکہ صدر، وزیراعظم، گورنرز، وزرائے اعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزرا، سینیٹرز، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور دیگر حکام بالا کے لیے مفت پیٹرول۔ عوام کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں جبکہ مذکورہ بالا خوش قسمت حکام کی بھاری بھرکم تنخواہیں، بے تحاشا مراعات اور اللے تللے۔ جناب وزیراعظم ! ایسی ریاست میں عام آدمی کیسے آپ سے خوش ہوگا؟
خود ہی حساب کتاب کرلیں کہ آپ نے عمران خان کو رخصت کرکے، حکومت سنبھال کے قوم کو دیا کیا، اور اس سے لیا کیا؟ زیادہ دور نہ جائیے، حالیہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کی رقم کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ لیں اور دوسرے پلڑے میں ان پر عائد کردہ تمام ٹیکسز، بجلی اور پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو رکھ لیں، دیگر اشیائے ضروریہ کی مہنگائی کو بھی اس پلڑے میں ڈال لیں، پھر دیکھیں کہ آپ نے لوگوں کو دیا کیا اور لیا کیا؟ جن کی تنخواہیں سرکار کے اعلان کے مطابق نہیں بڑھیں، ان کے بارے میں بھی ایک لمحہ سوچ لیجیے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ آپ اب بھی مسلسل ان کا خون نچوڑے اور ہڈیاں چچوڑے چلے جا رہے ہیں۔ اس کے بعد بھی آپ توقع رکھیں کہ لوگ آپ سے خوش ہوں گے، محض سادہ لوحی ہے یا پھر ریت میں منہ چھپانے والی بات ہے۔
یہ طعنہ دیا جا رہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کے ہاتھ میں کچھ نہیں، ان کے اوپر دو اشخاص کو بٹھا دیا گیا ہے، ایک کو وزیر داخلہ کہتے ہیں اور دوسرے کو وزیر خزانہ۔ شہباز شریف مجبورِ محض ہیں بے چارے۔ وہ ‘انھی’ کے اشاروں پر نقل و حرکت کرتے ہیں ‘ جنھوں’ نے تبدیلی پراجیکٹ کے ذریعے اس ملک کا بیڑہ غرق کیا تھا، اور ‘ وہ’ اب بھی سمجھتے ہیں کہ وہی عقلِ کل ہیں، وہ اب بھی سول کو سپریمیسی دینے کو تیار نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کہنے پر مجبور ہوئے کہ وہ استعفیٰ دیدیں گے لیکن دباؤ قبول نہیں کریں گے۔ اس تناظر میں میاں نواز شریف اور ان کی دختر نیک اختر مریم نواز شریف کا موقف درست ثابت ہوا کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد ہمیں حکومت نہیں سنبھالنی چاہیے۔
شاید ایسے ہی معاملے کے لیے کہا جاتا ہے
کھیر پکائی جتن سے چرخہ دیا جلا، آیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجا۔
سات برس قبل، ایک روز جناب خواجہ محمد آصف قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر جماعت اسلامی پر خوب گرج برس رہے تھے، فرما رہے تھے ‘قیام پاکستان سے لے کر آج تک جماعت اسلامی تاریخ کی غلط سمت کھڑی ہے۔’
پاکستان میں سب سے طویل فوجی ڈکٹیٹرشپ قائم رکھنے والے جنرل محمد ضیا الحق مرحوم کی بنائی ہوئی مجلس شوریٰ کے چیئرمین خواجہ محمد صفدر کے فرزند ارجمند کی یہ بات سن کر ہر کوئی حیران تھا کہ خواجہ صاحب جماعت اسلامی پر کیوں برسے؟ انھیں اصل مسئلہ تو عمران خان سے ہونا چاہیے تھا جو اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر بیٹھ کر ایوان اقتدار کی طرف بڑھ رہے تھے۔ بے چاری جماعت اسلامی تو پارلیمان میں اپنے انتہائی مختصر وجود کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ تین میں تھی نہ تیرہ میں۔ وہ عمران خان کے لشکر کے مقابل مسلم لیگ ن کا ساتھ دیتی یا نہ دیتی، ہر دو صورتوں میں ن لیگ کو کچھ فرق نہ پڑتا۔
دوسری جماعتوں کا حساب کتاب رکھنے والے مسلم لیگی زعما کو کبھی یہ بھی سوچ لینا چاہیے کہ وہ تاریخ کی کس سائیڈ پر کھڑے ہوتے ہیں۔ حالیہ چند برسوں میں مسلم لیگ ن کے فیصلوں اور اس کی حکمت عملی کا جائزہ لیا جائے، اس کے مستقبل کے عزائم کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن دانش، تدبر اور حکمت کے کس مقام پر کھڑی ہے۔
گزشتہ ماہ جون کے وسط میں شہباز شریف حکومت میں ایک کلیدی عہدہ رکھنے والے جناب احسن اقبال نے فرمایا کہ پاکستانی عوام چاہتے ہیں کہ عمران خان کو پانچ سال کے لیے جیل میں بند رکھا جائے۔ اب شہباز شریف حکومت کے ترجمان جناب عطا تارڑ نے واضح طور پر بتا دیا ہے کہ ان کی حکومت تحریک انصاف پر پابندی عائد کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔
کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرنے کے کیا نتائج نکلتے ہیں، تاریخ کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ عمران خان مقبولیت میں پہلے ہی بہت آگے ہیں، پابندی عائد کرکے آپ انھیں مزید کئی گنا مقبول بنادیں گے۔ ان کی مقبولیت سے نمٹنے اور اپنی مقبولیت بڑھانے کا صرف ایک ہی راستہ ہے، پاکستانی عوام کو مسلسل اور غیر معمولی ریلیف۔ اس کے لیے طبقہ اشرافیہ ہی کا پیٹ کاٹنا پڑے گا، کچھ عرصہ کے لیے صدر، وزیراعظم، گورنرز، وزرائے اعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزرا، سینیٹرز، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور دیگر حکام بالا کی تنخواہوں میں کمی کرنا ہوگی، ان کی مراعات مکمل طور پر ختم کرنا ہوں گی۔