’ہر ادیب اور شاعر اپنی ہم عصر نسل کے لیے لکھتا ہے۔ یوں کبھی نہیں ہوا کہ کوئی ادیب قلم اُٹھائے اور کہے کہ ’اب میں آنے والی نسلوں کی خاطر ادب تخلیق کرتا ہوں۔ وغیرہ وغیرہ‘ ہاں اگر ایک کے بعد دوسری نسل بھی اس کے ادب کو اسی شوق سے پڑھتی ہے، اور اس کے ساتھ خود کو منسلک و مربوط محسوس کرتی ہے تو یہ بات ادیب کے لیے گویا بونس کے طور پر ہوتی ہے، اور اس سے قلم کے مزدور کو اتنی ہی خوشی حاصل ہوتی ہے جتنی کہ کسی بھی محنت کش کو عید کے موقع پر ایک ماہ کی زائد تنخواہ ملنے کی ہوتی ہے۔ وہ اس پر شکر گزار ہوتا ہے، گو کہ یہ کوئی عطیہ نہیں بلکہ اُس کا اپنا حق ہے۔ (عبداللہ حسین ، لندن یکم جنوری 1984)
پاکستان اکادمی ادبیات کے مشاہیر ادب سے ملاقاتوں کے معروف سلسلے ’شام ملاقات‘ کی ایک شام ’عبداللہ حسین‘ کے اعزاز میں تھی۔ مدیر ادبیات برادرم اختر رضا سلیمی نے طلب کر رکھا تھا تاہم ناگزیر دفتری مصروفیات کے باعث تقریب کے اختتام پر پہنچ سکا۔ عبداللہ حسین کے ہمراہ تصاویر کھنچوائیں اور شہرہ آفاق ناول ’اداس نسلیں‘ پر ان کا آٹو گراف بھی لیا۔
اختر رضا سلیمی سے درخواست کی کہ عبداللہ حسین سے ملاقات کی کوئی سبیل نکالیں۔ سلیمی صاحب ہمیشہ کی طرح کام آئے اور انہوں نے آئندہ شام کو اکادمی کے رائٹرز ہاؤس میں ملاقات کا وقت لے دیا۔ یوں 12 جون 2013 کو رائٹرز ہاؤس کے کمرہ نمبر 111 میں عالمی شہرت یافتہ ادیب عبداللہ حسین سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔
دورانِ انٹرویو اختر رضا سلیمی اور کاشف رحمان کاشف بھی موجود تھے۔ کاشف رحمان کاشف نے انٹرویو کے کئی حصے ریکارڈ بھی کیے۔ سلام دعا اور تعارف کے بعد گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو عبداللہ حسین نے بات چھیڑی کہ پاکستان میں الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا انٹرویوز اور تجزیے وغیرہ کا معاوضہ نہیں دیتے حالانکہ دیگر ممالک میں اس ضمن میں باقاعدہ معاوضہ ادا کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں:‘بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی’
از راہ تفنن انہیں جواب دیا کہ سر! ہم آپ کو معاوضہ ادا کریں گے اور نہ ہی آپ سے لیں گے۔ عبداللہ حسین نے حیرت سے پوچھا کیا مطلب؟ میں نے بتایا کہ جس طرح دوسرے ممالک میں انٹرویو اور تجزیہ دینے والی شخصیات کو معاوضہ دیا جاتا ہے بالکل اسی طرح پاکستان میں انٹرویو چھپوانے کا معاوضہ بھی دیا جاتا ہے۔ بھرپور قہقہہ لگا اور گفتگو کا سلسلہ چل نکلا:
محمد خان سے عبداللہ حسین کیسے بنے؟
خدا خدا کرکے اداس نسلیں شائع ہونے کا موقع آیا تو کہا گیا کہ میرا نام اس وقت کے مشہور ادیب کرنل محمد خان سے ملتا ہے، اس لیے گڑ بڑ کا شائبہ ہے۔ انہی دنوں بجنگ آمد کا بھی کافی شہرہ تھا۔ یوں میں نے اپنا قلمی نام ’عبداللہ حسین ‘ رکھ لیا۔ اس نام کی بھی ایک خاص وجہ ہے کہ داؤد خیل کی میپل لیف سیمنٹ فیکٹری میں میرے ایک ساتھی کا نام طاہر عبداللہ حسین تھا۔ یوں قلمی نام کے انتخاب میں بھی دوست ہی کام آیا۔
تخلیقی سفر کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی؟
حادثاتی طور پر، اسی لیے خود کو حادثاتی ادیب کہتا ہوں۔ داؤد خیل، میانوالی میں سیمنٹ کی پہلی فیکٹری قائم ہوئی تھی، وہاں بطور کیمسٹ سلسلہ روزگار چل نکلا۔ وہاں چونے کے پتھروں اور مشینری کے علاوہ اوقات کار میں بندھے ملازمین تھے۔ 8 گھنٹے کام کرتے، 8 گھنٹے آرام کرتے۔ باقی کوئی شغل نہیں تھا۔ ایک دن شدید بوریت ہوئی، میں نے قلم اٹھایا اور کاغذ پر کچھ لکھنا شروع کر دیا۔ یہ ’اداس نسلیں‘ کی پہلی سطور تھیں۔
اس وقت ذہن میں ایک چھوٹی سی لو سٹوری تھی۔ ایک نواب جس کے پاس سینکڑوں ایکڑ زمین ہے۔ اس کی ایک بیٹی ہے جسے ایک قلاش کسان کے بیٹے سے محبت ہو جاتی ہے۔ عذرا نواب کی بیٹی جبکہ نعیم کسان کا بیٹا ہے، جس کے لیے عذرا اپنے پورے خاندان سے اپنی کلاس سے بغاوت کرتی ہے۔ سب کچھ چھوڑ دیتی ہے۔
اس دور میں اس طبقے کی عورت کی غریب کسان سے شادی ہونا ممکن نہ تھا۔ لڑکی نے خاندان کی مخالفت سہی تاہم اس نے اپنا پیار پا لیا۔ یہ محبت کی بڑی کہانی ہے۔ محبت یہ نہیں کہ آپ کا پڑوس کی لڑکی سے رابطہ ہوتا ہے، آپ کے گھر والے ان کے ہاں رشتہ لے جاتے ہیں وہ راضی ہوجاتے ہیں۔ آپ کی شادی ہوجاتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں یہ محبت کی شادی ہے۔
مزید پڑھیں:عینی آپا تھیں تو پاکستانی
نہیں بھائی! محبت کی تعریف یہ ہے کہ آپ کسی کی خاطر کس کس شے کی قربانی دے سکتے ہیں۔ بہرحال میں بوریت مٹانے کے لیے صفحے سیاہ کرتا رہا۔کچھ عرصہ لکھنے کے بعد مسودے پر نظر ڈالی تو بات چھوٹی سے لو اسٹوری سے خاصی بڑھ چکی تھی۔ کہانی کی شکل اور سے اور ہو گئی تھی۔ پھر میں رک گیا؟ کہانی میرے گلے پڑ گئی۔ کہانی بڑھتی گئی اس میں برصغیر کی تاریخ بھی در آئی پہلی جنگ عظیم بھی آگئی۔
سینکڑوں کتابیں پڑھنا پڑھیں۔ محض اس لیے کہ کہانی کو گھڑ کر نہ لکھوں، میں اس کے حقیقی منبع تک پہنچنا چاہتا تھا۔ تاکہ کہانی پڑھنے والوں کو متاثر کرسکے۔ اس لیے ہندوستان اور پاکستان کے مختلف مقامات کا سفر بھی کرنا پڑا۔ مجھے پتا چلا کہ ایک گاؤں میں پہلی جنگ عظیم لڑنے والا ہندوستان کا پہلا فوجی رہتا ہے، جس کا نام صوبیدار خداداد خان تھا۔ اسے پہلی جنگ عظیم میں وکٹوریہ کراس بھی ملا تھا۔
پنجاب میں ریل کا سفر کرکے ایک چھوٹے سے اسٹیشن پر اترا۔ پھر وہاں سے تانگہ کیا۔ اچھاخاصا فاصلہ طے کرکے تانگہ بھی رک گیا۔ آگے پیدل رستہ تھا، کھیت تھے۔ آدھا گھنٹہ پیدل چلا، صوبیدار سے ملا۔ اپنا مدعا بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ میرے پاس کچھ کتابیں ہیں آپ وہ پڑھ لیں۔ انگریزی میں ہیں، میں نہیں پڑھ سکتا۔ یہ ایک معرکے سے متعلق ہیں جو میں نے لڑا اور زخمی کمانڈر کو محفوظ مقام تک لایا۔
مزید پڑھیں:آفتابِ اَدب ۔ ڈاکٹر وزیر آغا
انعام میں سپاہی سے صوبیدار بنادیا گیا لیکن ریٹائر کرکے گھر بھیج دیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ وکٹوریہ کراس کے حامل شخص کو جنرلز بھی سیلوٹ کرنے کے پابند تھے۔ جبری ریٹائرمنٹ پر اچھی خاصی زمین ملی، اسی پر گزر اوقات ہے۔ قصہ مختصر جیسے تیسے قریباً 05 برس میں ناول کو انجام تک پہنچایا۔ 1963 میں ’اداس نسلیں‘ نے شہرت پائی اور اِسے آدم جی ادبی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
ناول کا عنوان ’اداس نسلیں‘ کیوں رکھا گیا؟
اگر آپ ناول پڑھیں تو اس میں ایک جگہ نعیم اپنے چھوٹے بھائی سے مکالمہ کرتا ہے۔ جہاں کہا جاتا ہے کہ ’اور پھر ایک پوری کی پوری نسل اداس ہو جاتی ہے۔‘ اسی مکالمے سے ناول کا نام لیا گیا تھا۔ یہ ناول کی خوش قسمتی اور ہماری بدقسمتی ہے کہ جب سے اداس نسلیں شائع ہوا ہے، ہماری نسلیں اداس سے اداس تر ہوتی چلی جا رہی ہیں اور کتاب خوب چل رہی ہے۔
’اداس نسلیں‘ کی اشاعت کے لیے آپ کو افسانے بھی لکھنا پڑے؟
جی ہاں! ناول کی اشاعت کے لیے ’نیا ادارہ ‘نے ہامی بھری۔ اس وقت تک میری کوئی تحریر شائع نہیں ہوئی تھی۔ مجھے کہا گیا کہ آپ کو کوئی تو بھی نہیں جانتا اور آپ اتنا ضخیم ناول لکھ لائے۔ ادارے کے روح رواں چودھری نذیر احمد ان پڑھ شخص تھے۔ انہوں نے مسودہ صلاح الدین اور سلیم الرحمن سے پڑھوایا جو ناول سے متاثر ہوئے۔
مزید پڑھیں:8 نومبر: یوم انور مسعود
انہوں نے کہا ہم ’سویرا‘ نامی ادبی مجلہ نکالتے ہیں‘ طے پایا ناول کی اشاعت سے قبل ایک کہانی لکھوں جو’سویرا ‘میں شائع ہو کر مجھے بطور ادیب متعارف کروائے۔ پہلے افسانہ لکھا ہی نہ تھا، بہرحال کوشش کرکے 1962 میں ایک کہانی لکھی۔ ’ندی‘ یہ کہانی کینیڈا سے متعلق ہے۔ جہاں میں نے کیمیکل انجینئرنگ کا ڈپلومہ کیا تھا۔
ڈپلومے کے لیے 18 ماہ کینیڈا میں مقیم رہا، اسی تجربے پر کہانی لکھ دی۔ وہ بھی حادثاتی تھی۔ وہ بھی خاصی مشہور ہوئی۔ پشاور سے ممبئی تک تعریف ہونے لگی۔ کینیڈا میں میری کلاس فیلو تھی۔ اپنی دنیا میں مگن، لوگ اسے خود سر اور گھمنڈی سمجھتے تھے۔ ایک روز میں نے ہمت کی اور اس سے پوچھ لیا۔ اس نے بتایا کہ اسے کچھ عرصہ قبل پتا چلا ہے کہ وہ لو چائلڈ ہے اور اسے کسی نے لے پالک بچی کے طور پر پالا ہے۔
وہ اپنے حقیقی والدین کی تلاش میں غلطاں تھی وہ اپنے خون کی حدت اپنے والدین کی آغوش میں محسوس کرنا چاہتی تھی۔ افسانہ ’ندی‘ سویرا میں شائع ہوا تو چودھری نذیر احمد نے اعلان کردیا کہ اردو کا عظیم ناول ان کے ادارے سے چھپنے والا ہے جسے ’ندی‘ کے مصنف عبداللہ حسین نے لکھا ہے۔ چنانچہ ’اداس نسلیں‘کی شہرت اس کی اشاعت سے پہلے ہی پھیل گئی تھی۔
مزید پڑھیں:اردو کا گیارہواں کھلاڑی پطرس بخاری
شہرت ملتے ہی آپ وطن چھوڑ کر برطانیہ چلے گئے، ایسا کیوں؟
میرے پاؤں میں بھی مستنصر حسین تارڑ کی طرح چکر تھا۔ شہرت کو وطن میں چھوڑا اور روزگار کے لیے برطانیہ چلا گیا۔ وہاں اچھی نوکری مل گئی۔ گھروں میں استعمال ہونے والی گیس بنایا کرتے تھے۔ پھر نیچرل گیس دریافت ہوئی تو ادارے نے کئی افراد کو فارغ کردیا جبکہ میں نے رضاکارانہ ریٹائرمنٹ لے لی، اچھے خاصے پیسے مل گئے۔
ان پیسوں سے ایک بار یعنی ’مے خانہ‘ خرید لیا۔ (قہقہہ لگاتے ہوئے کہا) اس کا بڑا فائدہ تو یہ ہوا کہ خود خریدنی نہیں پڑتی تھی۔ (کمرے میں موجود دوستوں کا قہقہہ تھما تو بولے) بار ساؤتھ لندن میں ایک مشہور جگہ پر تھی، ہر طبقے کے لوگ آیا کرتے تھے۔ ایک گورا بھی وہاں آیا کرتا تھا۔ اس نے کہا کہ آپ کیا لکھتے رہتے ہیں۔ میں نے بتایا کہ میں لکھاری ہوں۔
اسے اس کہانی کے بارے میں بتایا جس کا نام ’واپسی کا سفر‘ تھا۔ یہ کہانی ان نوجوانوں کی تھی جو پاکستان سے غیر قانونی طور پر لندن گئے۔ وہاں ایک گھر میں 17 بندے چھپ کر رہتے تھے، چھوٹا موٹا کام کاج کرتے تھے۔ گورا کہنے لگا بہت دلچسپ پلاٹ ہے، مجھے اسکرپٹ دیں۔ میں نے انگریزی کا سکرپٹ لکھ دیا تو رابرٹ بٹلر نے اس کا سکرین پلے لکھا پھر بی بی سی کے چینل ٹو نے اس پر ایک فلم بنائی جس کا نام ’برادرز ان ٹربل‘ رکھا ۔ اس کے عوض مجھے ہزار پاؤنڈ ملے تھے۔
مزید پڑھیں:بنام مشتاق احمد یوسفی
اداس نسلیں‘کا انگریزی ترجمہ یونیسکو کے کہنے پر کیا گیا تھا؟
جی ہاں! یونیسکو کے کہنے پر ترجمہ کیا گیا تھا۔ ان کا ایک پروگرام ہے ۔ UNESCO Collection of Representative Works وہ ہر سال ایک کتاب کا انتخاب کرکے دنیا کی 5 بڑی زبانوں میں ترجمہ کراتے ہیں۔ کتاب 25 برس قبل شائع ہوئی ہو اور اس کے ایڈیشن مسلسل آتے رہے ہوں۔ اسی پروگرام کے تحت میں نے اداس نسلیں کا انگریزی ترجمہ کیا جو’The Weary Generations‘ کے نام سے شائع ہوا۔
کہا جاتا ہے کہ اس ترجمے پر اعتراضات بھی کیے گئے؟
ایسا کچھ نہیں ہے، صرف ایک چھوٹے سے واقعہ کو ہوا دی گئی ہے۔ بھارتی مصنف شمس الرحمان فاروقی کی صاحبزادی جو ورجینیا یونیویورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ انہوں نے اداس نسلیں کے ترجمے پر کچھ اعتراض کیا۔ تاہم اکثریت نے اس پر اچھے تجزئیے کیے۔ برطانیہ کے تمام بڑے اخبارات لندن ٹائمز، گارڈین اور ڈیلی ٹیلی گراف نے تعریف کی۔
تجزیوں میں لکھا گیا کہ ناول پڑھ کر لگتا ہی نہیں کہ یہ ترجمہ ہے۔ اگر انگریزی کے بارے میں انگریز اچھا کہہ دیں تو کافی ہے۔ جہاں تک ان خاتون کی بات ہے، میں نے ان سے کہا تھا اگر آپ اچھا ترجمہ کر سکتی ہیں تو ’باگھ‘ کا انگریزی ترجمہ کردیں۔
پہلے ناول ’اداس نسلیں‘ اور دوسرے ناول ’باگھ‘ کا درمیانی وقفہ خاصا طویل رہا، یہ کیا معاملہ تھا؟
میں نے ایک مفکر ادیب کا قول پڑھا تھا کہ ہر شخص میں ایک ناول ہوتا ہے بھلے وہ اسے لکھے یا نہ لکھے تاہم آپ کا دوسرا ناول اچھا ہے تو پھر آپ اچھے ناول نگار ہیں۔ ایک ناول تو کوئی بھی لکھ سکتا ہے۔ اسی قول کے زیر اثر کافی مدت بعد ’باگھ‘ لکھا۔ دراصل ناول بھی تعمیر کیا جاتا ہے۔ بالکل کسی عمارت کی طرح۔ اس پر بہت محنت درکار ہوتی ہے۔ اس کے لئے تنہائی اور توانائی درکار ہے۔ ہمارے ادیب کاہل ہیں، محنت سے کتراتے ہیں۔
مغرب میں افسانہ اور شاعری نہ ہونے کے برابر ہے۔ ناول زیادہ لکھا جاتا ہے۔ میرا دوسرا ناول ’باگھ‘ کشمیر کے پس منظر میں ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا ہیرو عبداللہ حسین ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ ’باگھ‘ کشمیریوں کی سپرٹ کا عکاس ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مختلف زبانوں کے حامل اس پورے خطے میں شیر کو ’باگھ‘ کہا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں:کراہتے ہوئے انسانوں کی صدا ’جالب‘
ہمارے ادیب کل وقتی ادیب نہیں، کسی نہ کسی روزگار سے وابستہ ہیں۔ ان کی تخلیقات دستیاب وقت کے مرہون منت ہیں، کیا ادبی اداروں کو نہیں چاہیے کہ وہ اچھے تخلیق کاروں کو 2 یا 3 برس کے لیے غم روزگار سے چھٹکارا دلوائیں؟
بہت اچھی تجویز ہے۔ پاکستان اکادمی ادبیات اور مجلس ترقی اردو جیسے بڑے اداروں کو اس ضمن میں فوری قدم اٹھانا چاہیے۔ برطانیہ میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں دور کیوں جائیں۔ آپ بھارت کو دیکھ لیں، جواہر لعل یونیورسٹی دہلی میں تخلیق کاروں کو باقاعدہ رہنے کی جگہ اور سال بھر کا کھانا پینا مفت فراہم کیا جاتا ہے تاکہ وہ مالی پریشانیوں اور شور شرابے سے بے نیاز ہو کر اچھا ادب تخلیق کرسکیں۔
پاکستان میں تو رائٹرز کو ’پھدو‘ بنایا ہوا ہے، یہاں کتنا ٹیلنٹ ضائع ہو رہا ہے۔ میں خوش قسمت تھا کہ پہلا ہی ناول ہٹ ہوگیا، میں روٹی کمانے باہر چلا گیا۔ تسلیم کرتا ہوں کہ پاکستان میں کم ناول لکھے جانے کی ایک بڑی وجہ معاشی معاملات بھی ہیں۔
آپ کسی ناول یا افسانے کا مسودے مکمل ہونے پر کتنی بار پڑھتے اور ایڈٹ کرتے ہیں؟
میں 3 سے 4 بار مسودہ پڑھتا ہوں، تبدیلیاں کرتا ہوں۔ ’اداس نسلیں‘ 1400 سو صفحات پر مشتمل تھا۔ اسے بھی 4 بار پڑھا۔ ایڈٹ کیا اور حتمی مسودہ قطع برید کے بعد 500 صفحات پر محدود کیا۔ مصنف کو اپنی تصنیف کے ساتھ وقت گزارنا چاہیے، اس سے تخلیق میں بہتری آتی ہے۔
آپ مانتے ہیں کہ ’اداس نسلیں‘ کی شہرت کے باعث ’باگھ‘ نمایاں نہیں ہوسکا؟
جی! درست فرمایا، مجھے خود اپنی تخلیقات میں ’باگھ‘ زیادہ پسند ہے۔ اب لوگ اس جانب متوجہ ہوئے ہیں لیکن جب ’باگھ‘ اور’نادار لوگ‘ شائع ہوئے تو وہ ’اداس نسلیں‘ کی شہرت تلے دب گئے۔
آپ کا تخلیقی عمل کیا ہے؟
مجھے نہیں پتا کہ میرے ناول اور کہانیاں کہاں اور کیسے پیدا ہوئیں؟ فکشن لکھنے والا بہت سی باتوں سے لاعلم ہوتا ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ کہانیاں کہاں سے آئیں؟ کیسے پھیلتی چلی گئیں؟ فکشن میں 2 جمع 2 کا نتیجہ 6 بھی آ سکتا ہے اور 5 بھی۔ لکھنے کا وقت مقرر نہیں۔ کبھی صبح لکھتا ہوں، کبھی دوپہر یا شام میں۔ میں فارغ آدمی ہوں ۔ سونے سے بچ جانے والا وقت لکھنے میں صرف کرتا ہوں۔
مزید پڑھیں:100 برس کے مشیر کاظمی
موڈ نہ بنے تو 15، پندرہ روز تک کچھ بھی نہیں لکھتا۔ ناول نگار کی شخصیت (Split)منقسم ہوتی ہے۔ عام زندگی کے ساتھ ساتھ اسے ایک زندگی زیر تحریر ناول میں بھی بسر کرنا پڑتی ہے۔
ادیب کو اصلاح کے لیے ادب تخلیق کرنا چاہیے؟
ادیب کے ہاں یہ عمل لاشعوری ہونا چاہیے۔ جس طرح ترقی پسندوں نے ایک مہم شروع کی تھی وہ ناکام ہوگئی۔ یہ غیر شعوری معاملہ ہے۔ ادب اچھا ہے تو لوگوں تک پہنچے گا اور ان کے لاشعور کا حصہ بن جائے گا۔ جب صبح آپ کی آنکھ کھلتی ہے تو ذہن میں کوئی کہانی یا شعر ہوتا ہے۔ یعنی لاشعور میں دفن خیال نیند کے بعد ظاہر ہوجاتا ہے۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ادب آپ کے شعور میں اس گہرائی تک چلا جائے کہ وہ آپ کے لاشعور کا حصہ بن جائے، اِسی سے تبدیلی آتی ہے۔ تاہم اگر تعلیم نہیں تو ادیب بھی کوئی کردار ادا نہیں کرسکے گا۔ تعلیم سے ہی روشنی پیدا ہوگی اور انسانی اقدار فروغ پائیں گی۔ انسانی قدریں ہی معاشرتی اصلاح کی ضامن ہیں۔
ہمارے ہاں اچھی سے اچھی کتاب کی اشاعت ہزار، 1500 تک دم توڑ دیتی ہے جبکہ مغرب میں بہت زیادہ تعداد میں کتب شائع ہوتی ہیں؟
مغرب میں لوگ کتاب سے محبت کرتے ہیں، شرح خواندگی تسلی بخش ہے۔ رائلٹی کا باقاعدہ تصور ہے۔ لوگ خرید کر کتاب پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ رحجان پروان نہیں چڑھ پایا۔ خرید کر پڑھنا تو درکنار لوگ اعزازی کتب کو بھی صرف الماریوں کی زینت بناتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ زندگی بہت مصروف ہوگئی ہے مطالعے کے لیے وقت نہیں۔ کیا ہماری ہاں زندگی مغرب سے زیادہ متحرک ہے۔کتاب سے محبت، رائلٹی کو فروغ اور شرح خواندگی بڑھا کر ہی کتاب کی اشاعت میں اضافے کا سوچا جاسکتا ہے۔
ہمارے ہاں ادیب رائلٹی بارے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں؟
طویل عرصہ تک یہ مسئلہ رہا مگر جن چند ادیبوں کی کتابیں بکتی ہیں، انہیں رائلٹی ملتی ہے۔ آج کل ذاتی خرچ کرکے کتاب چھپوانے والے بھی میدان میں آگئے ہیں۔ سب کو صاحب کتاب بنے کا شوق ہے۔ البتہ مجھے رائلٹی ملتی ہے۔ میری کتابیں چاہے چار 5 برس بعد شائع ہوں مگر بک جاتی ہیں۔
برطانیہ میں میری کتابوں کے پبلشر مجھے ہر سال باقاعدہ انوائس بھجواتے ہیں کہ اتنی کتابیں شائع ہوئیں، آپ کی اتنی رائلٹی بنی۔ وہاں پبلشر اور مصنف اسی لیے کتاب سے جڑے ہیں۔
آپ اپنی کوئی بھی کتاب شائع ہونے پر دوستوں یا عزیز و اقارب میں مفت بانٹتے ہیں؟ جیسا ہمارے ہاں عام رواج ہے؟
جی نہیں! میں کسی کو مفت کتاب نہیں دیتا بلکہ سب کو یہی ترغیب دیتا ہوں کہ کتاب خرید کر پڑھیں تاکہ پبلشر اور مصنف کو بھی رائلٹی مل سکے۔
مزید پڑھیں:منٹو کا واحد پنجابی افسانہ اور احمد ندیم قاسمی
اردو فکشن کا مستقبل؟
نوجوانوں میں لکھنے کاجذبہ ہے۔ بہت سے اچھا بھی لکھ رہے ہیں۔ افسانے اچھے، خاصے لکھے جارہے ہیں۔ پرامید ہوں کیوں کہ امید اچھی ہی رکھنی چاہیے۔ عاصم بٹ اچھا ناول نگار ہے۔ میں نے اختر رضا سلیمی کے غیر مطبوعہ ناول کا مسودہ دیکھا ہے، انہوں نے محنت جاری رکھی تو کوئی شبہ نہیں کہ یہ اردو ناول نگاری کا اہم سنگ میل ثابت ہوں گے۔ میں انہیں اپنے قبیلے میں خوش آمدید کہتا ہوں۔
آپ کو، کون کون سے ادیب یا ناول نگار پسند ہیں؟
ولیم فاکنز بہت پسند ہے لیکن سب سے بڑا ناول نگار تو دوستوفسکی ہے۔ مارکیز کے ناول مجھے سمجھ نہیں آئے۔ میلان کنڈیرا نے نئی قسم کا ناول ایجاد کیا ہے۔ جیسے میں نے ’فریب‘ کی کہانیوں کو دو، 3 حصوں میں تقسیم کرکے لکھا۔ پہلے حال کا تذکرہ پھر ماضی کی کہانی، اس تجربے کو لوگوں نے پسند بھی کیا۔
آپ کے پسندیدہ ادیبوں میں پاکستانی یا اردو رائٹر کوئی بھی نہیں؟
(ہنستے ہوئے) مجھے تمام پاکستانی اور اردو لکھنے والے ادیب پسند ہیں۔ اب آپ خوش ہیں۔
آپ اکثر کہتے ہیں کہ آپ اچھی اردو نہیں جانتے حالانکہ آپ نے اردو میں کئی شہکار تخلیق کیے ہیں؟
کیونکہ آٹھویں تک اردو پڑھی پھر انگریزی پڑھنا شروع کی۔ والد بھی یہی کہا کرتے تھے کہ انگریزی پڑھو، ورنہ نیکر پہن کر چائے بیچنی پڑے گی۔ اب چائے بیچنے میں تو مجھے کوئی عار نہیں تھا مگر میلی کچیلی نیکر پہننے والوں کا جو نقشہ میرے ذہن میں آتا تھا وہ اچھا نہیں تھا۔
انگریزی پڑھنا شروع کی تو اگلے بیس، 25 سال تک انگریزی پڑھی۔ کالج میں سعید خان صاحب ہمارے انگریزی کے پروفیسر تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ پورا سال آپ کو کچھ نہیں پڑھاؤں گا، یہ 10 ناولوں کی لسٹ ہے۔ یہ پڑھ لیں، اپنے مضمون میں پاس کردوں گا۔
یوں مہمیز ملی اور رحجان انگریزی کی جانب ہوگیا تاہم خوش قسمتی ہے کہ میری اردو لوگوں کو پسند آئی اور یوں میری کمزوری ہی میری کامیابی بن گئی۔ مجھے انگلینڈ میں رہتے اتنے برس ہوگئے تھے مگر میں نے ’باگھ‘ میں انگریزی کا ایک لفظ بھی نہیں لکھا۔
آجکل کیا مصروفیات ہیں اور لندن لوٹنے کا ارادہ تو نہیں؟
فی الحال لندن لوٹنے کا ارادہ نہیں، آجکل 3 منصوبوں پر کام جاری ہے۔ اپنے ناول ’قید‘ کو انگریزی کے قالب میں ڈھال رہا ہے۔ انگریزی ناول ’افغان گرل‘ لکھ رہا ہوں۔ اردو ناول ’نادار لوگ‘ کا دوسرا حصہ لکھ رہا ہوں ’آزاد لوگ‘ یہ ان لوگوں کی کہانی ہے جو ہر قاعدے قانون سے آزاد ہیں یعنی ناقابل اصلاح ہیں۔
عبداللہ حسین 14 اگست 1931 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے اور 84 برس کی عمر میں خون کے سرطان کے باعث اسی ماہ 4 جولائی 2015 کو لاہور میں انتقال کرگئے اور وہیں محو استراحت ہیں۔