ترکی کے جنوب مغربی صوبے مارڈین کے جنوب مغرب میں دنیا کا سب سے قدیم اور بڑا زیر زمین شہر ہے، اس شہر کو موجودہ تاریخ دانوں نے مدیت کا نام دیا ہے، یہ شہر اتفاقیہ طور پر دریافت ہوا، وبے مارڈین کے ایک قصبے میں ایک شخص اپنی مرغیوں کو ڈھونڈتے ہوئے گھر کی دیوار کے پیچھے چلا گیا جہاں اسے ایک دروازہ نظر آیا، اس نے دروازے کو کھولا تو اس کے پیچھے ایک سرنگ تھی۔
یہ سرنگ دنیا کے سب سے قدیم اور سب سے بڑے زیر زمین شہر کو جانے والا راستہ تھا۔ 2020 میں آثار قدیمہ کے ماہرین نے وہاں کھدائی اور صفائی کا کام شروع کیا،اب تک وہاں درجنوں سرنگیں اور 50 سے زیادہ کمرے دریافت ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: انسانی تاریخ کی قدیم ترین پینٹگ میں کس چیز کی منظر کشی کی گئی ہے؟
اس شہر میں، چھوٹی بڑی سرنگوں کا جال بچھا ہے جو کمروں کو آپس میں جوڑتی ہیں، اس شہر کی سرنگیں چٹانوں کو تراش کر بنائی گئیں ہیں، اب تک صاف کی جانے والی سب سے بڑی سرنگ کی لمبائی 120 میٹر ہے۔
آثار قدیمہ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ ایک زمانے میں اس شہر میں 70 ہزار کے لگ بھگ لوگ رہتے تھے، اس شہر کے مکینوں نے یہاں اپنے لیے اناج اور خوراک کے گودام بنائے اور پانی کے لیے کنوئیں کھود رکھے تھے، باورچی خانے بھی تھے اور دھوئیں کی نکاس کا انتظام بھی تھا،عبادت گاہیں اور قربانی کی جگہیں بھی بنائی گئی تھیں۔ حتیٰ کہ یہاں باربرداری کے لیے جانوروں کے رکھنے کا بھی بندوبست کیا گیا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اب بھی پراسرار شہر کے ایک بڑے حصے تک رسائی نہیں ہوسکی ہے جسے دریافت کرنا ابھی باقی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان کی قدیم و جدید تاریخ کو محفوظ بنانے کے لیے ہسٹری میوزیم کا قیام
یہ شہر زمین کی سطح سے لگ بھگ 280 فٹ نیچے واقع تھا، جبکہ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اس شہر کا تعلق سن عیسوی سے بھی 900 سال پہلے سے ہے۔
آثار قدیمہ کے ماہرین کے اندازے کے مطابق یہ شہر 9 لاکھ مربع میٹر کے رقبے میں پھیلا ہوا ہے، تاہم اس کا ایک مختصر حصہ ہی دریافت ہو سکا ہے۔
زیر زمین شہر قائم کرنے کی وجوحات
کھدائی کی نگرانی کرنے والے ڈائریکٹر مروان یاوز کہتے ہیں کہ زمین کی گہرائی میں شہر بسانے کی مختلف وجوہات ہیں، شاید قدیم زمانے میں موسم کی شدت سے بچنے کے لیے یہاں پناہ لی جاتی ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ دشمنوں سے چھپنے کے لیے یہ غار اور کمرے استعمال کیے جاتے ہوں۔
شہر کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیے جانے کے قیاس کو تقویت اس لیے بھی ملتی ہے کہ شہر میں داخل ہونے کا چٹانی راستہ اس قدر تنگ ہے کہ اس میں جھک کر داخل ہونا پڑتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : قدیم دور کے انسانی ڈھانچوں میں پایا جانے والا وائرس آج بھی لوگوں کے پیچھے
پھر طویل قیام نے رفتہ رفتہ ان غاروں کو حقیقی شہر میں بدل دیا اور لوگ ان میں رہنے کے اتنے عادی ہو گئے کہ انہوں نے یہاں مستقل رہائش اختیار کر لی۔
تاریخ دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ یہاں رہنے والوں کا تعلق حکمران آشورناسرپال دوم کے دور سے تھا،جس کی حکومت کا عہد 883 سے 859 قبل از مسیح سے ہے، اس کی سلطنت مشرق میں خلیج سے لے کر مغرب میں مصر تک پھیلی ہوئی تھی۔
تاریخ دان کہتے ہیں کہ اس علاقے کا شمار، جسے ایک زمانے میں میسوپوٹیمیا کہا جاتا ہے، دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں کیا جاتا ہے۔ اس خطے میں مختلف سلطنتیں قائم رہیں۔ عربوں سے پہلے یہاں رومی اور بازنطینی حکومت کرتے رہے۔ مخالفین کو تہہ تیغ کرنا قدیم حکمرانوں کا شیوہ تھا۔ جس سے بچنے کے لیے لوگ ان غاروں میں پناہ لیتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ترکیہ میں دریافت ہونے والی دُنیا کی قدیم ترین روٹی کتنی پرانی ہے؟
تاریخ دان اکرام اکمان کہتے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ جب یہودیت اور عیسایت پھیلنی شروع ہوئی تو حکمرانوں کا تعلق قدیم روایتی عقائد سے تھا۔ انہوں نے نئے مذاہب کا پھیلاؤ روکنے کے لیے قتل و غارت سے کام لیا۔ اس دور میں مدیت کے غاروں نے فرار ہونے والوں کو تحفظ فراہم کیا ہو گا۔
یہ شہر تقریباً 2000 سال تک زندہ رہا۔ کئی مورخین کا کہنا ہے کہ اس شہر کے آخری مکین 1920 کے لگ بھگ یہاں سے چلے گئے تھے اور پھر وقت کی گرد نے اسے عشروں تک ہماری نظروں سے اوجھل رکھا۔
یہ بھی پڑھیں:ماہرین آثار قدیمہ نے یورپ کی سب سے بڑی اجتماعی قبر دریافت کر لی
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس علاقے میں مدیت واحد زیر زمین شہر نہیں ہے بلکہ مزید 40 ایسے مقامات کی نشان دہی ہوچکی ہے جہاں زیر زمین شہر موجود ہیں، تاہم مدیت کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ وہ ان سب کے مقابلے میں بڑا بلکہ بہت بڑا شہر ہے۔