جب میں نے سی آر بننے کے بعد یونیورسٹی کی انتظامیہ کو دیکھا

ہفتہ 1 اپریل 2023
author image

احمد شعیب

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

عمومی طور پر یونیورسٹیوں میں ایک ہی کلاس ریپریزنٹیٹوو (سی آر) پوری ڈگری کلاس کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھاتا ہے لیکن ہماری کلاس کا یہ رواج نہیں تھا۔

ہر ایک یا دو سمسٹرزکے بعد ہمارا سی آر تبدیل ہوتا تھا اور نئے امیدوار کو کلاس فیلوز ووٹ دے کر اس عہدے پر تعینات کرواتے تھے۔ یہ 2019 کی بات ہے جب ہمارا چوتھا سمسٹر شروع ہوا تو مجھے کلاس کا نیا سی آر بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

میں نے بھی یہ ذمہ داری قُبول کر لی کیونکہ سی آر ہونا بھی ایک اعزاز ہے جس کے تھوڑے بہت فوائد بھی ہیں۔ وقت گزرنا شروع ہو گیا اور معمول کے مطابق سمسٹر رواں دواں تھا کہ ایک دن ہم نے دیکھا کہ ہمارے کلاس رُوم کے ملٹی میڈیا (پروجیکٹر) کی لائٹ کافی کمزور ہوگئی ہے جس کے باعث سلائیڈ بہت دھندلی نظر آتی ہیں۔

میں نے سوچا کیوں نہ اس کے بارے میں انتظامیہ کو درخواست دی جائے۔ میں نے واٹس ایپ گروپ میں سب کلاس فیلوز سے رائے لی جنہوں نے لبیک کہا اور میں اگلے ہی دن ایک درخواست ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ (ایچ او ڈی) کی عرضی میں ڈالنے کے لیےلکھ کر لے گیا۔

ایچ او ڈی کے کمرے میں رسائی کسی بھی طالب علم کے لیے اتنی آسان نہیں ہوتی نہ ایچ او ڈی سے براہ راست کوئی طالب علم مل سکتا ہے۔ پہلے اُن کے اسسٹنٹ سے ملنا پڑتا ہے پھر وہ اجازت دیں تو آگے صاحب کی طرف جایا جاتا ہے۔ سہمے ہوئے قدموں کے ساتھ میں بھی ایچ او ڈی کے دفترمیں پہنچ گیا۔ وہاں پر موجود اسسٹنٹ نے پولیس کی طرح پہلے تفتیش کی، پھر وہ صاحب کے کمرے میں گیا، مجھے انتظار کرنے کا کہا اور خود واپس آ کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔

کچھ ہی دیر بعد گھنٹی بجی، اس نے مجھے اندر جانے کی ’اجازت‘ دی اور میں نے ایچ او ڈی کو سارے معاملے سے آگاہ کیا جنہوں نے پھر اسی اسسٹنٹ کو بلایا اور کہا کہ ’اِن کی درخواست لے کر فلاں فائل میں لگا دیں۔‘

ساتھ ہی ایچ او ڈی نے مجھے کہا کہ ’آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا، ہم آگے درخواست بھیج دیں گے۔‘ میں کمرے سے باہر نکلا تو اسسٹننٹ نے پھر تفتیش کی اور جانے کو کہا۔

میں اس کمرے سے کافی پُر امید نکلا کہ میں نے بطور سی آر ایک بڑا مسئلہ حل کروا دیا ہے اور اب فوراً نئے پروجیکٹر نصب ہوجائیں گے اور ہمارا مستقبل مزید دُھندلا ہونے سے بچ جائے گا۔

وقت اور سمسٹر گزرتا گیا، ہر روز امید ہوتی تھی کہ آج جائیں گے تو نئے پروجیکٹر پائیں گے لیکن کچھ بھی نہ بدلا۔ یہاں تک کہ مڈ ٹرم امتحانات ہوگئے لیکن ہمارے نصیب میں وہی دھندلی سلائیڈز ہی دیکھنا رہا۔

ایک وقت آیا کہ مجھے اور میری کلاس کو یہ معاملہ ہی بھول گیا اور ہم اس سمسٹر سے نکل کر نئے سمسٹر میں جا پہنچے لیکن وہ درخواست شاید ایچ او ڈی کے دفتر کی فائل سے نہ نکل سکی اور کوئی بعید نہیں کہ ابھی تک وہیں پڑی ہو۔

یونیورسٹی میں پڑھنے والوں کو علم ہوگا کہ ہر ڈیپارٹمنٹ میں ایک سٹوڈنٹ ایڈوائزر بھی ہوتا ہے جس کا کام طلباء اور ڈیپارٹمنٹ کے درمیان رابطہ کروانا اور تمام سمسٹرز کے سی آر کے ساتھ معاملات کو دیکھنا ہوتا ہے۔

میرے سی آر بننے کے بعد میرا اپنی ایڈوائزر سے پالا پڑنا شروع ہوا۔ ایڈوائزر کا عہدہ عمومی طور پر آفیسر کا عہدہ ہی ہوتا ہے۔ ایک دن اُنہوں نے مجھے میسج کیا اور 2 بجے دفتر آنے کا کہا۔ کلاس ختم ہوئی، میں اُن کے دفتر گیا جہاں وہ اپنی کولیگز کے ساتھ کھانا کھا رہی تھیں۔ یاد رہے ہماری یونیورسٹی میں کھانے اور نماز کے لیے دوپہر ایک بجے سے 2 بجے تک مخصوص بریک دی جاتی ہے۔

خیر میں نے وہاں دروازہ کھٹکھٹکایا، اندر سے آواز آئی ’آپ تھوڑی دیر بعد آئیے گا، ابھی لنچ کر رہی ہیں۔‘

میں نے کہا ’میم آپ نے کہا تھا 2 بجے آنا۔‘

جس پر انہوں نے کہا ’ہاں بس تھوڑا انتظار کرو۔‘ میں اس کے بعد وہیں نیچے فرش پر بیٹھ کر میم صاحبہ کا انتظار کرنے لگا۔ وقت گزرتا گیا اور تقریباً پونے گھٹنے بعد انہوں نے مجھے دوبارہ ایک گھٹنے بعد آنے کا کہا۔

میں سوچنے لگا کہ لگتا ہے کافی اہم کام ہے جس کے لیے میم اتنا اتںظار کروا رہی ہیں۔ ایک گھنٹہ گزرا، میں پھر ان کے دفتر پہنچ گیا۔

اس مرتبہ دروازے پر دستک دی تو انہوں نے کہا ’آجاؤ۔‘ میں اندر گیا اور پوچھا کہ ‘میم آپ نے بلایا تھا۔‘

جس پر انہوں نے کہا کہ ’آپ کو کچھ بتانا تھا کہ آپ کی جمعے کے دن والی کلاس اب پیر کو اور پیر والی کلاس جمعے کو ہوگی۔‘

میں نے اوکے کہا اور سوچا شاید یہ ذیلی خبر ہے، اصلی کام کوئی اور ہے جس کے لیے میں دو گھنٹوں سے انتظار میں ہوں لیکن میں غلط تھا۔ انہوں ںے مجھے یہی خبر دینے کے لیے 2 گھنٹے روکے رکھا۔

جی ہاں، جدید دور میں وہ مجھے سترہ الفاظ میں میسج لکھ کر بھی یہ بات بتا سکتی تھیں، وہ اپنے موبائل میں موجود واٹس ایپ کی سیاہی کو خرچ کر سکتی تھیں، مفت کے انٹرنیٹ سے اپنے کی بورڈ کے کچھ بٹن دبا کر ایک ای میل بھیج سکتی تھیں، اپنی شدید مصروف شفٹ سے ایک منٹ نکال کر مجھے فون کر سکتی تھیں لیکن انہوں نے مجھے 2 گھٹنے دفتر کے باہر انتظار کروانا بہتر سمجھا۔ کیونکہ ان کا بھی تو عہدہ آفیسر کا تھا اور ایسے کیسے ممکن ہو کہ آپ آفیسر کے دفتر جائیں اور انتظار کی لہروں پر غوطے نہ کھائیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp