کیا مخصوص نشستوں سے متعلق بل کی منظوری سپریم کورٹ کے فیصلے پر اثرانداز ہوگی؟

بدھ 7 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

قومی اسمبلی نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل کثرت رائے سے منظور کرلیا ہے، جس کے مطابق اب انتخابات میں کامیاب ہونے والا آزاد امیدوار 3 دن کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہوسکے گا جبکہ امیدوار کی جانب سے جمع کرایا گیا اقرارنامہ بھی تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ بل میں کہا گیا ہے کہ مخصوص نشستوں کی فہرست جمع نہ کرانے والی پارٹی کو مخصوص نشستیں بھی نہیں دی جاسکیں گی۔

اس سے قبل سپریم کورٹ نے 12 جولائی کو مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا فیصلہ سنایا تھا۔ اس فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے کامیاب آزاد امیدوار حلف نامہ 15 دن میں جمع کرائیں اور پی ٹی آئی یا کسی اور جماعت میں اپنی سیاسی وابستگی واضح کریں۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2024 قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے بھی منظور

وی نیوز نے مختلف قانونی ماہرین سے گفتگو کی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں سے متعلق منظور کیا گیا بل سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر اثرانداز ہو گا؟

ماہر قانون دان عمران شفیق نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بینچ میں شامل ججز کی اکثریت نے کیا ہے، اس فیصلے میں انہوں نے آئین کی مختلف دفعات کی تشریح کی ہے، یہ آئینی مسئلہ تھا اور سپریم کورٹ جب آئین کی کسی دفعہ کی تشریح کرتی ہے اور اس کے مطابق فیصلہ دیتی ہے تو اس کو قومی اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے سادہ اکثریت سے اس کو کلعدم نہیں قرار دیا جاسکتا۔

الیکشن ایکٹ ترمیمی بل بدنیتی پر مبنی ہے، عمران شفیق

انہوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2024ء کا حکومت صرف اتنا فائدہ لے سکتی ہے کہ وہ قانون کی آڑ لے کر الیکشن کمیشن کو تحفظ فراہم کرسکے اور جواز پیش کرسکے کہ چونکہ پارلیمان کا قانون پاس ہوگیا تھا اس لیے ہم سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرسکے جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت 15 دن کے اندر کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ خصوصی نشستوں سے متعلق قانون منظور کرکے الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درامد نہ کرنے کی بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مخصوص نشستوں سے متعلق حکم ماورائے آئین، ادارے اس پر عملدرآمد کے پابند نہیں، 2 ججز کا اختلافی نوٹ

عمران شفیق نے کہا کہ اب سپریم کورٹ کو اس قانون کو ٹیک اپ کرنے کے بعد کالعدم قرار دینا پڑے گا، پہلے اس پر سماعت ہوگی، فریقین بحث کریں گے، اس معاملے پر بینچ بنے گا جو فیصلہ کرے گا کہ آیا یہ قانون درست ہے یا نہیں، یہ معاملہ طویل ہوجائے گا اور حکومت کو وقت بڑھانے کا ایک ذریعہ مل جائے گا۔

ماہر قانون دان نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بظاہر یہ قانون بدنیتی پر مبنی ہے، سپریم کورٹ کے اکثریتی بینچ نے ایک سیاسی جماعت اور عوام کے بنیادی حقوق سے متعلق فیصلہ کیا تھا مگر اب حکومت جو قانون لارہی ہے، اس کی بینیفیشری بھی وہ خود ہے، تاہم یہ قانون اب سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ میں چیلنج ہوگا اور قانون کی روشنی میں فیصلہ ہوگا کہ مستقبل میں مخصوص نشستوں کو کیسے تقسیم کیا جائے گا۔

ترمیمی بل آئین کے بنیادی اسٹرکچر کے خلاف نہیں، حسن رضا پاشا

پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ حسن رضا پاشا نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی سے منظور کیے گئے بل کے اثرات یقیناً مرتب ہوں گے، یہ بل سپریم کورٹ کا امتحان ہے کہ وہ اس پر کس انداز میں ردعمل دیتی ہے، کیا عدالت اس فیصلے کو 63(اے) کے فیصلے کے تحت دیکھے گی یا پھر اس قانون کو حال ہی میں مخصوص نشستوں کے فیصلے کے تحت دیکھا جائے گا۔

حسن رضا پاشا نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ عدالت نے ’آئین دوبارہ لکھنے کی کوشش‘ کی ہے، حالانکہ سپریم کورٹ کے 63(اے) سے متعلق فیصلے میں پنجاب اسمبلی کے فلور کراسنگ کرنے والے 25 ارکان کے ووٹ بھی شمار نہیں کیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: مخصوص نشستوں کے معاملے میں اس جماعت کو ریلیف دیا گیا جو درخواست گزارہی نہیں تھی، وفاقی وزیراطلاعات

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ قومی اسمبلی کے بل پر اس وقت کوئی ردعمل نہیں دے گی جب تک کہ کوئی متاثرہ پارٹی اس بل کو چیلنج کرے، پی ٹی آئی چونکہ متاثرہ پارٹی ہے اس لیے توقع کی جاسکتی ہے کہ یہی جماعت سپریم کورٹ میں اس بل کو چیلنج کرے گی اور سپریم کورٹ بھی دیکھے گی کہ کیا اس کے فیصلے کو آئینی و قانونی طور پر ختم کیا گیا ہے کیونکہ پارلیمنٹ کے معاملات پر سپریم کورٹ اس وقت تک دخل اندازی نہیں کرسکتی جب تک کہ وہ بنیادی آئین کے اسٹرکچر کے خلاف نہ ہو۔ حسن رضا پاشا نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ یہ ترمیمی بل آئین کے بنیادی اسٹرکچر کے خلاف ہے۔

نئی ترامیم کا مستقبل میں نفاذ کیا جاسکے گا، مبین قاضی

ماہر قانون دان مبین قاضی نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے اپنا فیصلہ آئین کی روشنی میں دیا ہے، اگر پارلیمنٹ نے کوئی نیا بل منظور کیا ہے تو اس کا اس فیصلے پر کوئی اثر نہیں ہو گا البتہ آئندہ عام انتخابات میں اس بل کے ذریعے کی جانے والی ترامیم کا نفاذ کیا جاسکے گا۔

مبین قاضی نے کہا کہ سپریم کورٹ اگر سمجھتی ہے کہ پارلیمنٹ سے منظورشدہ بل آئین کے متضاد ہے تو وہ اس بل کو روک سکتی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ کوئی متاثرہ پارٹی سپریم کورٹ میں درخواست لے کر جائے اور اس بل کو چیلنج کرے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp