کسی بھی حکومت کے لیے یہ ایک بہت بڑی ناکامی تصور کی جاتی ہے کہ وہ کوئی قانون سازی متعارف کرنے کا اعلان کرے مگر اسے پارلیمان سے منظور نہ کرواسکے۔ جمہوری نظام میں عموماً حکومتی سربراہ کسی آئینی ترمیم لانے یا کوئی بل منظور کروانے کا اعلان اسوقت کرتا/کرتی ہے جب ان کے پاس وہ قانون سازی منظور کروانے کے لیے مطلوبہ نمبرز پورے ہوں۔ یہ واحد حکومت ہے جس نے اپنے نمبرز پورے کرنے سے پہلے ہی آئینی ترمیم لانے کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد حکومت کو جو سبکی اٹھانی پڑی وہ سب کے سامنے ہے۔
سوال یہ ہے کیا حکومت اوور کانفیڈینس کا شکار ہوگئی کہ وہ اتحادیوں کے علاوہ اگر حزب اختلاف کی چھوٹی جماعتوں سے ووٹ مانگے گی تو وہ ماضی کی قربت اور حلیف ہونے کی وجہ سے مان جائیں گے؟
یہ بھی پڑھیں:عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوتا؟
مولانافضل الرحمان چاہے دوست ہوں یا دشمن، سب کو پُرجوش اور پُرتکلف انداز میں خوش آمدید کہنے میں مہارت رکھتے ہیں، ملنے والا یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس نے مولانا کو نہ صرف قائل کرلیا ہے بلکہ شیشے میں اتار لیا ہے۔
کیا مولانا فضل الرحمان کے اس پرتکلف برتاؤ سے حکومتی مذاکراتی ٹیم دھوکا کھا گئی اور انکو ریڈ نہیں کر پائی؟ یا پھر عین وقت پر سپریم کورٹ کے 8 ججز کیطرف سے جاری ہونے والی الیکشن کمیشن کی درخواست پر وضاحت نے حکومتی امیدوں پر پانی پھیرا؟
وجوہات چاہے کچھ بھی ہوں لیکن لوگ پراسیس کو نہیں حتمی نتیجے کو دیکھتے ہیں۔ اگر حتمی نتیجہ توقعات کے برعکس ہو تو پراسیس چاہے درست ہی کیوں نہ ہو اس کو ناکامی ہی تصور کیا جاتا ہے، اور موجودہ آئینی ترمیم والا معاملہ اس حکومت کی ایک بہت بڑی ناکامی ثابت ہوا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت میں بعض اوقات سیاسی جماعتوں کو ایسے سیٹ بیکس ملتے رہتے ہیں۔ مذاکرات کے ذریعے حریف بھی حلیف میں بدل جاتے ہیں، لیکن یہ تب ممکن ہے جب بات چیت کے دروازے کھلے ہوں اور فریقین کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر اپنے لیے راستے نکالیں۔
یہ بھی پڑھیں:این آر او دینے سے لینے تک کا سفر
بعض اوقات بات چیت اور مذاکرات کے باوجود ایسا بھی ہوتا ہے کہ سیاسی حلیف بھی کسی بات پر متفق نہ ہوں اور تمام تر افہام و تفہیم کے بعد بھی ڈیڈلاک برقرار رہتا ہے اور اسکا نتیجہ اتحاد ٹوٹنے کی صورت میں نکلتا ہے، مثلا 2008 کے انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی نے جب حکومت بنائی تو مسلم لیگ ن نے بطور اتحادی اس حکومت میں شمولیت اختیار کی۔ ان دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان میثاق جمہوریت کے معاہدے میں یہ طے ہوا تھا کہ اقتدار ملنے کے بعد وہ ملٹری ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی قائم کردہ نیب کو ختم کر دیں گے۔
پیپلزپارٹی کو جب اقتدار ملا تو اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اسمبلی کے فلور پر یہ اعلان کیا کہ وہ نیب کے حوالے سے بل لائیں گے ۔ جب اس بل کا ڈرافٹ تیار ہوا اور پیپلزپارٹی نے اپنی اتحادی جماعت ن لیگ کے ساتھ اس کا مسودہ شیئر کرکے اس کی تجاویز مانگیں تو ن لیگ کو اس کی کچھ شقوں پر اعتراض تھا۔
واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ ن لیگ کی قیادت کو اعتراض تھا کہ نیب کے اس نئے مسودے میں این آر او بارے جو شق شامل کی گئی ہے اس کو نکالا جائے۔ اس پر ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا اور مذاکرات کے باوجود وہ ڈیڈلاک ختم نہیں ہوسکا۔ نہ پیپلز پارٹی وہ شق نکالنے کو تیار تھی اور نہ ہی ن لیگ یہ شامل کرنے کو تیار تھی۔ نتیجتاً وہ بل کبھی منظور ہونے کے لیے پیش ہی نہیں ہوسکا اور lapse (متروک) ہوگیا۔ اور پھر ن لیگ بھی زیادہ عرصہ پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت میں نہ رہ سکی۔
یہ بھی پڑھیں:ن لیگ کے چالاک سیاستدان
اس لیے کہتے ہیں سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔ اس میں کچھ ایسا بھی ہوسکتا ہے جو آپ نے سوچا بھی نہ ہو۔ آنے والے دنوں میں یہ بھی ممکن ہے کہ مولانا فضل الرحمان کیساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف کے اراکین بھی اس ترمیم میں ووٹ ڈال رہے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ حکومتی اتحادی ہی بدظن ہوکر اس ترمیم سے کنارہ کشی اختیار کرلیں۔ تاہم سیاسی مصلحتیں ایک طرف مگر حکومت کی اس مجوزہ آئینی ترمیم کی منظوری میں ناکامی کی ایک وجہ سپریم کورٹ کی وضاحت کا بھی اہم کردار ہے۔
میڈیا میں اس حوالے سے مصدقہ ذرائع سے یہ خبریں گردش کررہی تھی کہ پاکستان تحریک انصاف کے وہ اراکین جو کہ آزاد حیثیت سے منتخب ہو کر آئے تھے ان میں سے شاید کچھ اراکین حکومت کی طرف سے پیش کردہ اس آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالیں گے۔ لیکن سپریم کورٹ کے 8 ججز کی اس وضاحت کے بعد حکومت کا وہ پلان بی بالکل منتشر ہوگیا، کیونکہ مولانا فضل الرحمان کے انکار کی صورت میں حکومت اپنا پلان بی استعمال کرسکتی تھی۔ اس لیے اس وضاحت کے بعد حکومت کا نمبر پورے کرنے کے لیے سارا دارومدار پھر مولانا فضل الرحمان پر تھا۔مولانا جو کہ سیاسی داؤ پیچ کے ماہر ہیں، وہ اس حقیقت کو بھانپ چکے ہیں کہ ان کی حمایت کے بغیر حکومت آئین سازی نہیں کرسکتی، اس لیے وہ موجودہ حکومت کو اپنی اہمیت اچھے طریقے سے جتلائیں گے اور اسکے بعد اپنا اور اپنی جماعت کا مفاد مقدم رکھتے ہوئے ہی کوئی فیصلہ کریں گے۔
اس سارے منظر نامے کے بعد بظاہر یہی لگتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے اپنے سابقہ حلیفوں کو یہ احساس کامیابی سے دلا دیا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں وہ اب بھی اہم ہیں، اس لیے ان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جبکہ حکومتی اتحادیوں کو بھی اس بات کا اب احساس ہو چکا ہے۔ اس لیے گمان یہی ہے کہ حکومت نے، جیسا کہ اعلان بھی کیا ہے کہ وہ بہت جلد اس آئینی ترمیم پر اتفاق رائے پیدا کرکے اس کو دوبارہ ایوان میں پیش کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں:پروفیسر ریاض کا اغوا اور سماجی منصفین
اس بار حکومت شاید اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے۔ لیکن اس پورے معاملے میں یہ حکومت کے لیے بھی ایک سبق ہے کہ کبھی بھی اپنا ہوم ورک مکمل کیے بغیر ایسا قدم اٹھانے سے گریز کرنا چاہیے جس سے بعد میں ہزیمت اٹھانی پڑے۔